کیا ہم ایک ذمہ دار شہری ہیں


سوشل میڈیا کے اس دور میں یہ ایک اہم سوال ہے کہ سوشل میڈیا میں ہمارا طرزِ عمل کیا ہے؟

جب سے حکومتی سطح پر سوشل میڈیا کے تعلق سے سخت موقف اختیار کیا گیا ہے، بہت سے لوگ اپنے اپنے انداز میں سوشل میڈیا کے استعمال کے تعلق سے ہدایات جاری کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود نوجوان ہی نہیں بلکہ عمر رسیدہ افراد بھی بغیر کسی احساس ذمہ داری کے بے دریغ ہر قسم کے پیغامات کو اپنے احباب تک پہنچانے میں مصروف ہیں.

کہا جاتا ہے کہ چونکہ انٹرنیٹ کی مفت اور لا محدود سہولت حاصل ہے اس لئے ایسا کیا جا رہا ہے. اولاً تو مفت کی بات ہی غلط ہے. اب تو ہر ماہ ریچارج کرانا لازم ہو گیا ہے ورنہ سم کارڈ کینسل کر دیا جائے گا دوسرے بغیر ڈاٹا ریچارج کرائے انٹرنیٹ کی سہولت ممکن نہیں ہے. ہاں بس یہ سہولت اتنی زیادہ ہے کہ وقت مقررہ تک باوجود بغیر تکلف استعمال کرنے کے برقرار رہتی ہے.

اس موقع پر اللہ کے رسول اور نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہمارے لئے بہترین اسوہ ہے کہ "اگر تم دریا کے کنارے بھی وضو کر رہے ہو تو پانی کو ضائع مت کرو"

اس انتہائی واضح اور اہم رہنمائی کے باوجود اگر ہم کو سوشل میڈیا میں اپنی سرگرمی اور غیر ضروری استعمال کا احساس نہیں ہے تو یہ شاید اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم کو اللہ کے سامنے پیش ہونے اور اپنی زندگی کے تمام معاملات کا حساب ہونے پر یقین نہیں ہے. اگر واقعی ایسا ہے تو پھر دنیا کا کوئی قانون اور سزا ہم کو غلط عمل سے روک نہیں سکتے.

اللہ نے ہم کو حکم دیا ہے کہ ہم اللہ کی ہدایت اور نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا اہتمام کریں اور اس کے ساتھ ہی ہم کو وہ انسانی گروہ بتایا گیا ہے جو بھلائی کا حکم دیتا ہے، بُرائی سے روکتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں.

آئیے اس ایمانی ہدایت کی روشنی میں ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہمارے معاملات زندگی بحیثیت مسلمان درست ہیں، اگر ہاں تو اللہ کا شکر ادا کریں اور پوری زندگی بحیثیت شعوری مسلمان گزارنے کی فکر کریں اور اگر اپنی زندگی کے معاملات کو اس کے برعکس پائیں تو بغیر ایک لمحہ بھی ضائع کئے اللہ سے اپنی خطاؤں اور گناہوں کی معافی طلب کریں، مغفرت کی دعا کریں اور اللہ سے دعا کریں کہ اللہ ہم کو شعوری طور پر "مسلمان" کی زندگی گزارنے کی توفیق اور قوت عطا فرمائے آمین.

محمد خالد.

جدید تر اس سے پرانی