بابری مسجد کا فیصلہ اور علماء کی اپیل







 

 بابری مسجد مقدمے کی فیصلے کی تاریخ قریب آ رہی  ہے تو حکومت کی طرف سے  یہ کوشش کی جارہی ہے کہ ملک کا ماحول پر امن رہے اور کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ اس فیصلے کے پیش نظر  نہ ہو لیکن جو قابل غور پات  ہے وہ یہ کہ  سرکار کی یہ کوشش صرف ایک


م‌زہب مخسوس کے قائدین اور علماء پر زیادہ مرکوز ہے  ہر چھوٹے بڑے عالم سے یا ایک م‌زہب مخسوس رہنما سے یہ اپیل کرائی جا رہی ہے کہ آپ لوگ بیان دیں کی عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ ہم سب کو منظور ہوگا اور اس کے پیش نظر ہم لوگ کوئی خوشی یا غم کا اظہار نہیں کریں گے لیکن یہ بات صرف ایک م‌زہب مخسوس علماؤں سے ہی کیوں کروائی جارہی ہے ابھی تک کوئی بھی دوسرے م‌زہب مخسوس
کی تنظیم یا ان کے کسی بڑے یا چھوٹے رہنما نے سامنے آکر یہ اپیل نہیں کی ہے کہ ان کو عدالت کا ہر فیصلہ منظور ہوگا اور نہ ہی انہوں نے اپنے عوام سے امن قائم رکھنے کی کوئی اپیل کی ہے غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سرکار اس سے کیا ثابت کرنا چاہتی ہے کیا وہ ملک کی اکثریت کو یہ باور کرانا چاہتی ہیں کہ فیصلہ آپ کے حق میں آنے والا ہے اور ایک م‌زہب مخسوس اس کے خلاف احتجاج کر سکتے ہیں اس لئے ان لوگوں کو امن قائم رکھنے کے لیے کہاں جا رہا ہے یا جج صاحبان کو یہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دیکھئے ایک م‌زہب مخسوس تو ہر صورت میں فیصلہ ماننے کو تیار ہے اس لئے اگر یہ فیصلہ ان کے خلاف بھی جائے گا تو کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا اور تیسرا یہ کہ یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کی صرف ایک م‌زہب مخسوس ہی لڑائی جھگڑا کرتا ہے  اور ملک کے امن و امان کو خطرہ  ہے تو میری یہ گزارش ہے کہ برائے مہربانی ہمارے علماء کرام اور ہمارے قائدین کے پاس سرکار کی طرف سے یہ تجویز آئے کہ آپ پریس کانفرنس یا بیان دے تو وہ کم سے کم  یہ بھی کہیں کہ جب ہم پریس کانفرنس کریں تو کوئی  دوسرے م‌زہب مخسوس لیڈر یا ان کا مذہبی رہنما بھی ہمارے ساتھ موجود تو زیادہ بہتر ہوگا اور دونوں مذاہب کے لوگ مل کر اس ملک کے امن و امان کو قائم رکھیں گے تا ک دونوں فرقوں میں اعتماد بحال ہو سکے




محمد عمران خان

سابق ایڈوائزر سہارا نیوز نیٹ ورک

 


م‌زہب مخسوس 

 



 



ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی