نئی دہلی :11 دسمبر 2019 آئی این اے نیوز
نئی دہلی 11/دسمبر2019. لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا سے شہریت ترمیمی بل کی منظوری کو ایک افسوس ناک سانحہ قرار دیتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ یہ بل آئین کے بنیادی ڈھانچہ کے خلاف ہے اس لئے جمعیۃ علماء ہند اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ لوک سبھا سے منظوری کے بعد ہماری پوری کوشش تھی کہ یہ بل راجیہ سبھاسے نہ پاس ہو، اس کے لئے ہم نے مختلف پارٹیوں کے ذمہ داران سے نہ صرف رابطہ قائم کیا
بلکہ انہیں اس بات پر قائل بھی کیا کہ اس خطرناک بل کے ملک پر کس حدتک مضراثرات مرتب ہوں گے مگر افسوس خودکو سیکولرکہنے والی کچھ پارٹیوں نے غیر ذمہ دارانہ رویہ کا ثبوت دیا اور یہ بل راجیہ سبھاسے بھی پاس ہوگیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بل سے آئین کی دفعہ 14اور 15کی صریحاً خلاف ورزی ہوتی ہے، جن میں اس بات کی کھلی ہدایت ہے کہ ملک میں کسی بھی شہری کے ساتھ رنگ ونسل اور مذہب کی بنیادپر کسی طرح تفریق نہیں کی جائے گی، اور ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک ہوگا، مولانا مدنی نے کہا کہ اس بل کا مکمل مسودہ مذہبی امتیاز اور تعصب کی بنیادپر تیارہواہے،
اور ا س میں کہاگیا ہے کہ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے جو مظلوم اقلتیں بھاگ کر ہندستان آئیں گی، انہیں نہ صرف پناہ بلکہ شہریت بھی دیجائے گی جب کہ مسلمانوں کو اس سے الگ رکھا گیا ہے جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس بل کے ذریعہ مذہبی بنیادپر ملک کے شہریوں کے درمیان ایک لکیر کھینچنے کی کوشش کی گئی ہے۔وہیں اس بل کی وجہ سے ملک کی سلامتی اور سیکورٹی کو بھی سخت خطرہ لاحق ہوسکتاہے کیونکہ اس کے ذریعہ دستاویزات کے بغیر جن لوگوں کو شہریت دینے کا راستہ ہموارکیا جارہا ہے ہوسکتاہے ان میں سے کچھ لوگ ملک دشمن عناصر کے ایجنٹ بن کر ملک کی تباہی وبربادی کا ذریعہ بن جائیں،انہوں نے آگے کہا کہ یہ بل قانونی خامیوں سے بھرا ہوا ہے اور آئین کے جو رہنما اصول ہیں ان سے متصادم ہے آئین میں یہ اہم نکتہ موجودہے کہ قوانین میں ترمیم کرتے وقت آئین کی روح یا اس کے بنیادی ڈھانچہ سے کسی طرح کی چھیڑچھاڑ نہیں کی جائے گی جبکہ اس بل میں مذہبی بنیادپر تعصب اور امیتاز کی راہ اختیارکرکے آئین کے بنیادی ڈھانچہ پر ضرب لگانے کی دانستہ کوشش ہوئی ہے، آئین کی دفعہ 13میں یہ کہاگیا ہے کہ
اگر کوئی عمل بنیادی حقوق سے ٹکراتاہے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی یعنی اگرآئین میں کسی طرح کی ترمیم ہوتی ہے یاقانون سازی کی جاتی ہے اور وہ بنیادی حقوق سے متصادم ہوتاہے تو اس کو تسلیم نہیں کیا جائے گاشہریت ترمیمی بل شہریوں کے بنیادی حقوق پر بھی کاری ضرب لگاتا ہے۔مولانا مدنی نے آگے کہا کہ اس بل کے اثرات ابھی بھلے ہی نظرنہ آئیں لیکن جب پورے ملک میں این آرسی لاگو ہوگی اس وقت یہ بل ان لاکھوں لاکھ مسلم شہریوں کیلئے ایک قیامت بن جائے گا جو کسی وجہ سے اپنی شہریت ثابت نہیں کرپائیں گے، انہوں نے کہا کہ یہ دلیل بالکل غلط ہے کہ شہریت بل کا این آرسی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ بل این آرسی کو ذہن میں رکھ کرہی لایا گیا ہے تاکہ مسلمانوں کے لئے این آرسی کے عمل کو مشکل تربنادیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل اس لئے بھی خطرناک ہے کہ اس سے ملک میں صدیوں سے موجود مذہبی اور تہذیبی اتحاد کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتاہے یہ ہندومسلم کا مسئلہ ہرگزنہیں ہے بلکہ انسانی حقوق اور شہریوں کے بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے، یہ ایک انتہائی خطرناک بل ہے جس کے پیچھے خالص سیاسی مقاصد کارفرماہیں۔ اس سے اکثریت کی فرقہ وارانہ صف بندی کی راہ ہموارکرنے کی کوشش ہورہی ہے، ملک میں موجودفرقہ پرست طاقتیں طویل عرصہ سے یہی چاہتی ہیں کہ کسی بھی طرح ملک میں صدیوں سے موجود ہماری اتحادکو توڑکر بکھیر دیا جائے۔مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند اس لئے اس بل کو عدالت میں چیلنج کرے گی کیوں کہ قانون سازیہ نے ایمانداری سے اپنا کام نہیں کیا ہے۔ اس لئے اب عدلیہ ہی اس پر کوئی بہتر فیصلہ کرسکتی ہے۔ اس سلسلے میں وکلاء سے مشورہ کیا جاچکا ہے اور پٹیشن کا مسودہ تیار ہورہا ہے۔