اردو رسم الخط کو بچائیے


معصوم مرادآبادی

کل مہاراشٹر کے شہر کامٹی سے ایک اردو کے عاشق نے فون کیا۔ انہیں میری ایک کتاب کی تلاش تھی۔ دوران گفتگو انھوں نے بتایا کہ کسی زمانے میں یہاں اردو کتابیں اور اخبارات و رسائل اچھی خاصی تعداد میں فروخت ہوتے تھے لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے اور لوگ ساری رقم مشاعروں پر صرف کرتے ہیں۔ لاکھوں روپے معاوضہ لینے والے شاعر بلائے جاتے ہیں ۔ ساری رات مشاعرہ چلتا ہے اور صبح کو دھول ہی دھول ہوتی ہے۔ گویا اردو اب صرف مشاعروں تک محدود ہوتی جارہی ہے  اور بطور زبان اس کی تعلیم اور تدریس پر توجہ بہت ہی کم ہے۔ 

 

میں نہ تو مشاعروں کا مخالف ہوں اور نہ ہی شاعروں سے مجھے کوئی بیر ہے ۔ بیشتر مشہور ومعروف شاعروں سے میرے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات ہیں اور یہ شعرائے کرام بھی مجھے بہت عزیز رکھتے ہیں۔ میری فکر کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ اگر اردو صرف سماعتوں تک محدود ہو جائے گی اور اس کا رشتہ بصارت سے ٹوٹ جائے گا تو پھر اس کے رسم الخط کے باقی رہنے کی کیا ضمانت ہوگی؟

گزشتہ دو روز سے سوشل میڈیا پر ریختہ کے بینر میں جشن اردو کی جگہ جشن ہندوستانی لکھنے پر خاصا واویلا مچا ہوا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ریختہ والوں نے یہ تبدیلی کیوں کی اور پھر اس سے کیوں رجوع کرلیا۔ میں ریختہ کے بانی سنجیو صراف کی اس لئے قدر کرتا ہوں کہ انھوں نے اپنی جیب خاص سے کروڑوں روپے خرچ کرکے اردو کے کلا سیکی سرمائے کو ڈیجٹلائز کرکے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیاہے اور اب یہ نایاب ذخیرہ اسمارٹ فون کے ذریعے ہرکس وناکس کی دسترس میں ہے۔ یہ توفیق ہم اردو والوں میں سے کسی کو نہیں ہوئی اور نہ ہی اردو اداروں نے اس طرف توجہ کی۔

ریختہ والے ہرسال کروڑوں روپے خرچ کرکے جو جشن مناتے ہیں اس کے شرکاء میں اردو والوں کی تعداد آ ٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوتی ۔ جشن ریختہ میں شریک ہونے والے بیشتر نوجوان وہ ہیں جو عشق کی راہ آ سان کرنے کے لئے اردو کا سہارا لیتے ہیں۔ ان لوگوں کا اردو سے تعلق محض سماعتوں کی حدتک ہے۔ اس لئے میں یہ کہتاہوں کہ اردو بطور زبان کے تو مقبول ہورہی ہے مگر اس کا رسم الخط مسلسل سکڑ رہا ہے۔ کیا اردو والوں کو اس ناقابل تلافی نقصان کی کوئی فکر ہے۔ ہمارے نئے شاعر اور شاعرات بھی بڑے فخر کے ساتھ رومن یا دیوناگری میں اشعار لکھ رہےہیں۔ ذرا سوچئے اردو کی قبر کون کون کھود رہا ہے؟

جدید تر اس سے پرانی