متحدہ ہندوستان مولانا آزاد کا خواب تھا: ڈاکٹر شیخ عقیل احمد


 


 


قومی اردو کونسل کے صدر دفتر میں یوم تعلیم کا اہتمام


نئی دہلی ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا شمار دنیا کی ان نتخب ہستیوں میں ہوتا ہے جو صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان جیسے جہاں دید ہمہ گیر اور ہمہ جہت رہنما بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک تھے۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے زبردست علمبردار تھے اور متحدہ ہندوستان ان کا خواب تھا۔ انھوں نے پورے ملک میں رواداری اور بھائی چارہ کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی، آزاد ہندوستان کے پہلے وزیرتعلیم کی حیثیت سے انھوں نے تعلیم پر بہت سے انقلابی اقدامات کیے اور ملک کے تعلیمی نظام کو استحکام بخشا۔ اسی لیے حکومت ہند نے 11 نومبر کو ان کی بیوم پیدائش کے موقع پر ملک بھر میں یوم تعلیم منانے کی ہدایت دی۔ یہ باتیں قومی اردو نسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کونسل کے صدر دفتر میں منعقدہ یوم تعلیم کے موقع پر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مولانا آزاد نے ہندوستان کو جس طرح متحد کرنے کی کوشش کی موجودہ وقت میں اس اتحاد کی بے حد ضرورت ہے۔ اس موقع پر کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر سیدہ سید این حمید نے مولانا آزاد کی پیدائش سے لے کر موت تک تمام باتوں کو مربوط اور مبسوط ریتے سے پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی پوری سیاسی زندگی متحدہ قومیت، رواداری کے لیے وقف تھی۔ ملک کی آزادی میں مولانا کی صحافت کوششوں سے انکار ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے انگریزوں کے ظلم و تشدد کے خلاف پوری قوم کو بیدار کرنے کے لیے الہلال نامی رسالہ جاری کیا۔ اس پر پابندی لگنے کے بعد ابلاغ نامی رسالہ نکال کر مجاہدین آزادی کے اندر جذ بتحرک کو بیدار کیا۔ مولانا آزاد کو اس ملک سے بے پناہ محبت تھی۔ تقسیم ہند کے وقت مسلمان اپنے آبا و اجداد کی سرزمین چھوڑ کر پاکستان کوچ کررہے تھے اس وقت مولانا آزاد نے جامع مسجد کی سیڑھیوں سے جذباتی تقریر کی جسے سننے کے بعد پاکستان جانے کا ارادہ مسلمانوں نے ترک کر دیا۔ انھوں نے اس موقع پر کہا کہ مولانا آزاد کی ذاتی لائبریری میں لگ بھگ آٹھ ہزار کتابیں تھیں جسے انھوں نے ICCR کے حوالے کر دیا۔ ان کتابوں میں کچھ ایسی کتابیں تھیں جس پر مولانا آزاد نے پل سے حواشی لکھے تھے اس کے علا و مترجمان القرآن کے امی نے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اس پر مزید کام کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماضی پرستی گرچہ بہت بڑا گناہ ہے لیکن ماضی کے ان حصوں کو تراش خراش کرنا چاہیے جو نگل گیا ہے اور جو چیز میں اچھی ہیں میں ان کو قبول کرنا چاہیے۔ آج مولانا آزاد کی باتوں کی بازیافت ضروری ہے اور یہ موجودہ وقت کا تقاضا بھی ہے۔ اپنی صدارتی تقریر میں پروفیسر شمیم غنی نے کہا کہ مولانا آزاد کی بہت مخالفت ہوئی تھی مگر اب مولانا آزاد کے نظریات کی بازگشت صاف سنائی دے رہی ہے۔ ایک طرح سے مولانا آزاد کے نظریات کی پیر سے تجد ید ہورہی ہے۔ پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر شمع کوژ یزدانی نے تمام حضرات کا شکر یہ ادا کیا۔ اس پروگرام میں دین کے مشہور شاعر جناب شاداب الفت اور بریلی سے جناب شارق کیفی مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے۔ ان کے علاوہ پروفیسر توقیر عالم خان، پروفیسر دیوان حسان خان، ڈاکٹر ریاض احمد، ڈاکٹر ابو بکر عباد، جناب عبد السلام (یو این آئی) ، جناب معصوم مراد آبادی، جناب عقیل احمد (سکریٹری غالب اکیڈی) کے ساتھ کونسل کا عملہ بھی موجودتھا۔ رابطہ عامہ میل)


ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی