ترکوں کا عکس تاریخ کے آئینے میں۔۔۔





















 

  








 




 



 




 

قسط 13

تابش سحر

قسطنطنیہ کی آہنی فصیلیں دم توڑ چکی تھی، دشمن پسپا ہوچکا تھا، صبح کا سورج ترکوں کی جوانمردی کا نظارہ کررہا تھا۔ یکے بعد دیگرے فاتح فوج کے دستے شہر میں داخل ہورہے تھے اور اپنے مدمقابل کو تلوار کی دھار اور چمک دکھارہے تھے پھر جب انہوں نے دیکھا کہ شہری بےبس ہوکر ہتھیار ڈال چکے ہیں تو پھر وہ مالِ غنیمت جمع کرنے لگے، سورج سر پر آچکا تھا۔ باشندگانِ قسطنطنیہ فضا میں خون کی بو صاف محسوس کررہے تھے، ہر ایک خوف زدہ اور غمگین تھا گویا ان کے سینوں میں کسی نے خنجر پیوست کردیا ہو۔ ظہر کے وقت اقبال مند سلطان' محمد فاتح اپنے وزراء اور لاؤ لشکر کے ہمراہ شہر میں داخل ہوا، اس کا گھوڑا ایاصوفیہ کی جانب رواں دواں تھا، ایاصوفیہ کے گرجا گھر میں سلطان نے خدائے وحدہ لاشریک کی حمد و ثنا بیان کی، یہ تاریخی اور پُراسرار، مضبوط و مستحکم، خوبصورت و کشادہ عمارت پچھلے گیارہ سو برس سے تثلیث کے قائل نادان بندوں کے زیرِ اثر تھی اس پُرشکوہ عمارت میں توحید کے ترانے اور اخلاص و للّٰہیت کے نغمے گنگنائے گئے، در و دیوار شجر و حجر مؤذن کی ندا پر گویا جھوم رہے تھے۔

تین دن تک شہر بھر میں خوف اور مایوسی کا سایہ تھا، گلیوں میں موت کا سنّاٹا چھایا تھا، مالِ غنیمت کی کثرت عظیم فتح کی داستان پیش کررہی تھی، ٹوٹی فصیلیں عزم و استقامت کے فضائل بیان کررہی تھیں کہ چوتھے روز سلطان نے امنِ عام کا اعلان کردیا، جان و مال کی حفاظت کی ذمّہ داری لے لی گئی، سابقہ امور اور پیشوں سے جُڑ جانے کا فرمان جاری کردیا گیا، مذہبی اور شخصی آزادی کی منادی کروادی گئی بلکہ بذاتِ خود سلطان نے کلیسا کا بطریق ازسرِنو مامور کردیا، اسے اپنے ہاتھ سے وہ عصا عنایت کیا جو اس کے امتیازی منصب کا غمّاز تھا، اس کی ذات محترم قرار دے دی گئی اور سابقہ اختیارات بحال کردئے گئے۔ رواداری، رعایاپروری اور عدل و انصاف پر مبنی ان انسانیت نواز فیصلوں نے باشندگانِ قسطنطنیہ کے چہروں سے خوف و غم کی سیاہی زائل کردی۔ اخلاق و کردار کی اس بلندی کو کئی غیر مسلم و عیسائی مؤرخین نے سراہا ہے، ایک ایسے دور میں جہاں فاتح' مفتوح قوم کی نسل کشی کو اپنا فرضِ منصبی تصوّر کرتا ہو اس طرح امنِ عام اعلان کردینا اسلام کی انسانیت نوازی کا واضح ثبوت ہے۔ قسطنطنیہ میں یونانیوں کی کثرت تھی لیکن اس عظیم فتح نے ترکی، بلغاریہ اور البانیہ کے افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا اور وہ آبادی کا حصّہ بن گئے۔ فتحِ قسطنطنیہ کا خواب شرمندۂِ تعبیر ہوچکا تھا، فتح کی جو بشارت و پیشنگوئی پیغمبرؐ نے سنائی تھی پایہ تکمیل کو پہنچ چکی تھی، اسی بشارت و پیشگوئی کے پیشِ نظر غلامانِ محمّدؐ نے مختلف ادوار میں گیارہ یا بارہ حملے کئے تھے مگر کامیابی کا تاج ہادیِ اعظمؐ کے ہمنام محمد فاتح کے سر پر چمک رہا تھا، قسطنطنیہ کی فصیل کے قریب حضرت ابوایوب انصاریؓ کی تربت محبت و یقینِ کامل کا درس دے رہی تھی یہاں سلطان نے حاضری دی اور ایک مسجد تعمیر کروائی جسے جامع ایوب کا نام دیا گیا، پھر ایک روایت چل پڑی کہ جب بھی کوئی سلطان تخت نشیں ہوتا تو اسی مسجد میں عثمان اوّل کی تلوار حمائل کرتا، فاتح سپاہی قسطنطنیہ کے گوشے گوشے کا نظارہ کررہے تھے، سمندر کی موجیں حضرت امیر معاویہؓ کے فولادی عزم و ارادے کا تذکرہ کررہی تھی، فضا میں کوئی سرگوشی کررہا تھا کہ قسطنطنیہ کا پہلا محاصرہ شیرِ خداؓ کے مبارک زمانے میں ہوا تھا، راہ کے سنگریزے گویا والہانہ انداز میں فخریہ کہہ رہے تھے کہ اے فاتح قوم کے جانبازوں تم ابن عمرؓ، ابنِ زبیرؓ اور ابنِ عبّاسؓ کے نقشِ قدم پر چلے ہو، تمہیں ہم مبارکباد پیش کرتے ہیں، خدا تمہاری نسلوں میں حمیّت و غیرت، شجاعت و استقامت برقرار رکّھے۔ 

قسطنطنیہ کی تاریخی حیثیت، جغرافیائی ہیئیت اور دیگر سماجی و معاشی وسائل و عناصر کی کثرت کی بناء پر سلطان نے اسے سلطنتِ عثمانیہ کا دارالسلطنت بنا لیا۔ 

قسطنطنیہ کی فتح یقیناّ ایک زبردست اور عظیم کارنامہ تھی لیکن اسے اپنی منزل سمجھ لینا عقابی روح اور فولادی جسم رکھنے والے سلطان کو منظور نہ تھا اپنے تیس سالہ دورِ حکومت میں وہ کارواں کو سرگرمِ عمل رکھتا رہا، گویا اسے آسمانوں میں اپنی منزل نظر آرہی تھی، چنانچہ اس کے لشکر طوفان کے مانند بڑھتے ہی رہے، یونان نے اطاعت اختیار کی، سربیا کے فرمانروا نے خطیر رقم کے عوض صلح کی پیشکش کی، بوسنیا میں فتح کا پرچم لہرانے لگا، موریا پر ترکوں کے خیمے مضبوطی کے ساتھ جم گئے، کرمانیہ میں سلطان کا اقبال بلند ہوا، طرابزون اور سینوپ پر قبضہ ہوگیا، کریمیا اور ولاچیا میں کامیابی نے قدم چومے، البانیا اور ہرزیگووینا عثمانی سلطنت کے حدود میں شامل ہوگئے۔ اٹلی کی دلہن' "وینس" جسے اپنی خوبصورتی پر ناز تھا اپنے طاقتور بحری بیڑے پر مکمل اعتماد تھا، اپنی معاشی  حیثیت پر غرور و گھمنڈ تھا، سلطان کے رعب کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی، خراج کی ادائیگی کی ذلّت اس کا مقدّر ٹہری۔ الغرض یورپ سلطان کی پیش قدمی اور فتوحات کے سلسلے سے ہکّا بکّا رہ گیا تھا لیکن موت وہ حقیقت ہے جو شاہ و گدا میں تفریق نہیں کرتی چنانچہ وقت کا عظیم فاتح، عادل فرمانروا سلطان محمد فاتح 2 مئی 1481ء کو انتقال کرگیا۔

فتوحات کے ان سلسلوں سے یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ محض ایک کامیاب فاتح حکمراں و جنگجو تھا بلکہ تاریخ کے اوراق شاہد ہے کہ جس طرح وہ میدانِ حرب و ضرب کا ماہر تھا اسی طرح علم کے میدان میں بھی نمایاں اور فائق تھا، ترکی، عربی اور فارسی کے علاوہ دیگر زبانوں پر عبور رکھتا تھا، خود شاعر بھی تھا، علماء کا قدردان اور علم پرور انسان تھا، اس کی محفلیں باکمال اور جیّد علماء سے سجی رہتی تھیں، اس نے مدارس و مکاتب بھی قائم کئے، عوام کی فلاح و بہبود، امن و امان اور ملک و ملّت کی ترقّی کے خوب سامان کئے البتہ اس کی ذاتی زندگی میں کئی ایک واقعات اس کی سنگ دلی کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں معمولی سی وجہ کی بنیاد پر وہ قتل کے فرمان جاری کردیتا اس کے سامنے بڑے بڑے پاشا کو اپنی جان کا خوف لگا رہتا۔ 





جدید تر اس سے پرانی