سی اے اے: یہ شہریت نہیں؛ ملک بچانے کا معاملہ ہے


محمد یاسین جہازی

”یہ افسوس ناک ہے کہ ہندتوو کے نام پر گذشتہ کئی دہائیوں؛ خصوصا 1915اور 1925سے ملک کو ایک خاص سمت میں لے جانے کی مہم کا جو آغاز کیا گیا تھا، اس پر توجہ دے کر بہتر متبادل فراہم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ آزادی کے بعد بھی اس طرف سے تغافل برتا گیا۔ جہاں سیکولر طاقتوں اور پارٹیوں نے حالات کا صحیح ادراک نہیں کیا، وہیں مسلم رہ نماؤں اور تنظیموں سے بھی حالات سمجھنے میں چوک ہوئی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ستر سال کی دہائی کے بعد سے ملک میں نظریاتی، تہذیبی، سماجی اور اقتصادی و تعلیمی لحاظ سے ہمارے اکابرین مجاہدین آزادی اور معماران ملک و قوم کے سپنوں کے بھارت کے برعکس ملک کی نقشہ گری کا کام کیا جانے لگا۔“ (ہندوتو اور راشٹر واد، ص/6)

”مسلمانوں نے سنگھ کی پالیسی کو سمجھنے میں چوک کی ہے، جس نے اپنے مینی فیسٹیشن کے ذریعہ بتایا ہے کہ اسے منوسمرتی کو نافذ کرنا ہے اور مضبوط دشمن، یعنی اسلام اور مسلمانوں کو زیر کرنا ہے، علما ہوں یا دانشور، مسلم پرسنل لاء بورڈہو یا کوئی اور ادارہ؛ بد قسمتی سے یہ چوک ہوئی ہے اور ہوتی رہی ہے۔“ (ہندوتو اور راشٹر واد، ص/10)

ان دونوں اقتباسات کو پیش کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ CAAکے نفاذ العمل کے بعد موجودہ سرکار کی نیت و ذہنیت واضح ہوجائے اور یہ سمجھنے میں کوئی شک نہ بچے کہ وہ ملک کو کس طرف لے جانا چاہتی ہے اور کہاں تک لے جاچکی ہے۔ 

مختلف مذاہب و لسانیات پر مشتمل اس ملک بھار ت میں وطنیت کے حوالے سے کئی طرح کے نظریات سامنے آئے، جن میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمدمدنی یعنی جمعیت، شاعر مشرق علامہ اقبال، ابوالاعلیٰ مودودی اور آر ایس ایس کے نظریات ہمارے سامنے ہیں۔ ذیل کی سطروں میں ہر ایک کی صرف تعریف پیش کی جارہی ہے۔ 

جمعیتکا نظریہ متحدہ قومیت کے نام سے مشہور ہے، ان کا کہنا تھا کہ قومیت کی بنیاد وطن اور جغرافیہ پر ہے، لیکن اس کے ساتھ اس جغرافیائی حدود میں بسنے والے تمام افراد کو اپنے مذہب، زبان اور کلچر کی پوری پوری آزادی رہے گی۔ 

شاعر مشرق کا کہنا ہے کہ قومیت کی بنیاد وطن کے بجائے مذہب پر قائم ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ وطن کا مفہوم صرف جغرافیائی نہیں ہے، بلکہ یہ ہیئت اجتماع انسانی کا ایک سیاسی تصور ہے  اور اس ہیئت کی یکسانیت کے لیے مذہبی یکسانیت ناگزیر ہے۔ 

 مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے قومیت کے اسی نظریہ کو تسلیم کیا ہے، جو شیخ الاسلام نے پیش کیا ہے؛ البتہ شیخ الاسلام نے اپنے نظریے کی وضاحت کے عنوان میں ایک بات یہ لکھی ہے کہ ’یہی وہ چیز ہے، جس کا اعلان کانگریس ہمیشہ کر رہی ہے‘۔ (متحدہ قومیت اور اسلام، ص/38)، اس وضاحت سے مولانا مودودی فرماتے ہیں کہ ’یہیں سے ہمارے اور ان کے درمیان نزاع کا آغاز ہوتا ہے‘۔ (مسئلہ قومیت /106) 

یعنی ابوالاعلیٰ صاحب کو شیخ الاسلام سے صرف اتنا اختلاف ہے کہ ”کانگریس کی مراد کو اپنی مراد سے جو وابستہ کردیتے ہیں، وہ صحیح نہیں ہے“۔ (ہندوتو اور اور راشٹر واد، ص/32)

آر ایس ایس کے یہاں قومیت کے لیے ہندوتو کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اس کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے گول وال کر کی کتاب We or Our Nationhood defined  سے چند اقتباسات پیش کر رہے ہیں:

’اب یہ جیسا کہ ثابت ہوچکا ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہندستان ہندووں کا ہے اور یہ صرف ہندوتو کے پھلنے پھولنے کی ٹھوس جگہ ہے۔ …… اس لحاظ سے پرانی ہوشیار قوموں کے تجربات کے پیش نظر ہندستان میں بیرونی نسلوں کو یا تو ہندو تہذیب اور زبان اختیار کرنا چاہیے، ہندو دھرم کا احترام سیکھنا چاہیے، ہندو نسل اور تہذیب و ثقافت کی ستائش کے علاوہ کوئی نظریہ نہیں اختیار کرنا چاہیے اور اپنی علاحدہ شناخت و تشخص کو ترک کے خود کو ہندو نسل میں ضم کردینا چاہیے۔ اگر یہ نہیں تو ملک میں پوری طرح ہندو راشٹر کے ماتحت بن کر رہنا چاہیے کہ کسی چیز کا دعویٰ نہیں کریں گے۔ ترجیحی سلوک کی بات تو دور، کسی رعایت کے بھی حق دار نہ ہوں گے اور حقوق شہریت کے بھی طالب نہ ہوں گے۔“ (ص/45، بحوالہ ہندوتو اور راشٹر واد، ص/18) 

درج بالا سطریں واضح ثبوت ہیں کہ این آر سی اور سی اے اے ان لوگوں کی شہریت کو مشکوک یا ختم کرنے کی پری پلان سازش ہے، جو لوگ ہندو تہذیب،زبان اور اپنی شناخت کو ختم کر کے ہندو نسل میں ضم نہیں ہوجاتے۔ اس لیے حقیقت یہی ہے کہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ہماری یہ لڑائی صرف ایک قانون کے غلط استعمال کی لڑائی نہیں ہے؛ بلکہ بھارت کے سیکرلر اقدار کو بچانے کی لڑائی ہے، جس کی بنیاد متحدہ قومیت پر قائم ہے، اس لیے ہر بھارتی کا یہ فرض ہے کہ بھارت کو بچانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے میں پیش پیش رہے۔

 

جدید تر اس سے پرانی