از الحاج داکٹر عبدالروف
شاعر مشرق علامہ اقبال نے ایک صدی قبل فرمایا تھا
"عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں"
(تشریح) "جب ملت کے نوجوانوں میں عزائم بیدار ہو جائیں اور یہ نو جوان کسی تحریک ، کسی تنظیم کسی بلند و بالا مقصد کے لئے میدان عمل میں آجائیں تو وہ عقاب بن کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جائیں گے"۔
بیسوی صدی کی عظیم شخصیت حضرت مو لانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے ایک موقع پر اپنی تقریر میں فرمایا تھا کہ عصری علوم کے فیض یا فتہ طلبہ ہی قوم کی قیادت کریں گے ۔میں ملت کے نوجوانوںسے مایوس نہیں ہوں جو عصری علوم یو نیورسیٹوں اور کالجز میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یقیناً وہ ملت کی قیادت کریں گے۔ مذکورہ بالا ان دو عظیم مفکروں کی دور اندیش نگاہوں نے بہت کچھ پہلے سے ہی سمجھ لیا تھا اور دیکھ لیا تھا۔
اس کا مظاہرہ آج مجھے نظر آرہا ہے ملک کی موجودہ قیادت نے اپنی عنانیت اور آئیڈیو لوجی کو برقرا ر رکھنے کے لئے مسلمانوں کے لئے ہر حر بہ استعمال کر رہی ہے۔ اپنی عدد ی طاقت کے زعم میں پارلیمنٹ کے ایوان زیریں وایوان بالا سے تین طلاق بل پاس کیا۔ جسے صدر مملکت کی منظوری کے بعد قانونی شکل اختیار ہوا۔ جسے ملک کے مسلمانوں نے آپسی چہ میگوئیوں کے بعد خاموشی اختیار کر لی۔ بابری مسجد کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ مسلمانان ملک خاموش رہے۔ لیکن مقننہ کا حالیہ فیصلہ CAAکے نفاذ NPRکا نفاظ NRCکی تشکیل نے مسلمانوں کے خاموش سمندر میں اُبال، ٹھاٹھیں مارتا ہوا موج بر پا کر دیا ہے۔ چونکہ مذکورہ بالا قانون سے اس ملک میں ہمارے وجود کو ہی مٹا دینے کا خطرہ لاحق ہے۔ مزید بر آنکہ پارلیمنٹ میں جب وزیر داخلہ نے سینہ ٹھونک کر اعلان کیا تھا کہ آسام کے بعد پورے ملک میں NRCکا نفاذ ہو گا اور دیش کے ایک ایک انچ زمین سے گھس بیٹھئے کو نکال باہر کیا جائے گا۔ آسام کے NRC لسٹ میں جب 19لاکھ میں 14لاکھ غیر مسلمین کا نام آگیا تو انہوں نے غیر مسلمین کو ہندوستانی شہریت اور مسلمانوں کو در انداز ٹھہرانے کے لئے CAAکا بل 11 دسمبر 2019ءکو دونوں ایوانوں نے پاس کر دیا جسے راشٹر پتی کی دستخط سے قانون بھی بن گیا۔ اس کالے قانون کے نفاذ سے ہماری پیرانہ قیادت نے" ٹک ٹک دیدم، دم نہ گشیدم"، کے مصداق خاموشی اختیار کرلی جبکہ ناصحانہ قوم و ملت نے یہ اعلان کیا کہ پورے ملک کے مسلمان اپنے اپنے شہریت ہونے کے ثبوت کے کاغذات درست کریں۔
لیکن ہماری قوم کے جانباز و شاہین صفت جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلبہ نے 12 دسمبر 2019ءکو یہ اعلان کر دیا کہ ملک میںNRC، CAA،NPRکا نفاذ نہیں ہوگا۔ ہم لوگ کسی طرح کا کاغذات حکومت کو نہیں دکھائیں گے۔ جواہر لال نہرو یو نیورسٹی کے طلبہ نے اور سارے ہندوستان کی یونیورسیٹوں کے طلبہ نے جامعہ ملیہ کے طلبہ کے ساتھ بھی اظہار یکجہتی کیا ہے۔ ان نوجوانوں کے ساتھ طالبات بھی اس کالے قانون میں پیش پیش ہیں۔۔۔۔۔۔۔ آفریں ہے۔ جامعہ ملیہ کی بہادر طالبہ "لدیدہ"جس نے احتجاج میں پولس کے ڈنڈے کھائی ہیں ان کی خدادا ہمت ہے کہ اس احتجاج میں اپنی طالبہ بہنوں کے ساتھ ساتھ پیش پیش ہیں۔ اپنی کئی دوستوں کو پولیس کے ڈنڈے سے بچائی ہیں۔
یہ نوجوانان جو حکومت کے ظلم کو روکنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں ان کی ہمت کی داد پوری قوم دیتی ہے۔ وہ قابل قدر ہے۔ ہندوستان کے سیکولر اور جمہوری دستورکی حفاظت اور تکسیری سماج کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہیں۔
ہماری خواتین بھی قائدانہ رول ادا کرنے میں سر فہرست ہیں۔ جس کی مثال جامعہ ملیہ کی طلبہ لدیدہ اور شاہین باغ میں مستقل 45دنوں سے دھرنا میں بیٹھی ہوئی خواتین اور ان کے نقش قدم پر پورے شمال و جنوب میں خواتین کا احتجاج ہے۔ جو اس سخت سردی کے موسم میں ہندوستان کے سیکولر اور جمہوری آئین کی حفاظت کے لئے تمام ہی مذاہب کے افراد و خواتین شریک ہیں بس ایک ہی آواز NRC،CAA،NPR، ہٹاو ¿ ہم اسے نہیں مانیں گے یہ دھرنا شب و روز جاری ہے۔بعض ریاستوں (لکھنو) میں ان خواتین کے کمبلوں کو پولیس نے چھین لیا بچوں کے بے بی فوڈ کو بھی چھین لیا۔ بنیادی ضروریات پبلک واش روم میں تالا لگا دیا۔
لیکن عزائم جوان ہیں، نوجوان خون کی رگوں میں گردش کر رہی ہے حب الوطنی سے اپنے جوش و جذبات میں وہ آہنی عزم رکھتی ہیں۔ادھر CAAکی حمایت میں 20 جنوری 2020ءکو لکھنو کی ایک ریلی میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنے سابقہ تیور کو برقرار رکھتے ہوئے تقریر کی "میں ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں جسے مخالفت کرنا ہے کرے CAAواپس نہیں لیا جائے گا"۔۔۔۔۔ ملک کے نوجوانوں کو وزیر داخلہ کے بیان پر اس چالیس دن کے احتجاج پر آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔
اب جامعہ ملیہ کے نوجوان طلباءطالبات کے ساتھ ساتھ سارے ملک میں بلا لحاظ مذہب و ملت ڈاکٹرز ، انجینئیرز، وکلا ، جرنلسٹ اعلیٰ عہدیداران خواتین غرضیکہ ملک کی 67فیصد آبادی کی نمائندگی کی شرکت ہو رہی ہے۔ حکومت کی غیر لچک دار پالیسی نے انگریزوں کی نو آبادیاتی نظام کی یاد تازہ کر دی ہے۔
ایک طرف مسلم نوجوانوں کا اور غیر مسلموں کی کثیر تعداد جس میں ہندو،سکھ، عیسائی سبھی شامل ہیں۔ میدان میں آگئے ہیں۔ ان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ لیکن عزائم جوان ہیں۔
دوسری طرف ظلم و ستم کا کوہ گراں ہے۔ ایک طرف ملک کا آئین بچانا ہے انصاف کا پرچم و عدالت ہے۔
دوسری جانب حکومت کی شان اور طاقت ہے نوجوان اور طلبہ خواتین، ملک کے انصاف پسند شہری اس وقت کے انتظار میں ہیں جب تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے۔
اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہے عقابی اور شاہین صفت نوجوان سڑکوں اور خاک پر نمازیں ادا کر رہے ہیں یقیناً اس ایمان کے ساتھ 'بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی، جو منظر بھی ہے ناظر بھی ، وہ اپنی قربانیاں پیش کر رہے ہیں تاکہ ملک میں جمہوریت کا انصاف کا اور سیکولرزم کا بول بالا ہو، اور ہندوستان کے ہر شہری بالخصوص مسلمانوں کو اس کالے قانون سے نجات ملے، صدیوں صدیوں سے مقیم سارے ملک کی سوندھی مٹی سے ہمیں جدا نہیں کیا جائیگا۔
اب رہ گئی بات ہمارے ناصحین قوم جو مسلمانوں کو بار بار مشورہ دے رہے ہیں کہ اپنے اپنے کاغذات درست کرلیں۔
واحسر تا۔۔۔۔! ان ناصحین قوم و ملت سے یہ سوال ہے جب آپ حکومت کے سامنے سپر ڈال کر کاغذات بنانے کی تلقین فرمارہے ہیں تو مسلمانوں کے 25فیصد آبادی جو غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گذار رہے ہیں ان کے پاس کوئی مکان نہیں کوئی دستاویزات نہیں مانا کہ پوش علاقہ میں رہنے والے 75فیصد مسلمان اپنے کاغذات درست کرلیں تو بقیہ 25فیصد مسلمانوں کو آپ حکومت کی حراستی کیمپ) (Detention Camp میں جانے کے لئے چھوڑ دیں گے۔۔۔۔۔؟
آفرین ہے ان عقابوں ، شاہینوں اور جانباز جامع ملیہ کے نوجوانوں پر جنہوں نے پوری ملت سے ہمدردی کی بناپر سب سے پہلے NO NRC، NO CAA، NO NPR ہم کسی بھی صورت میں اپنے کاغذات حکومت کو نہیں دکھائیں گے۔
یہ تحریک جاری و ساری ہے اس تحریر کو قلمبند کرتے ہوئے آج 23 جنوری2020ءمشہور مجاہد آزادی نیتاجی شبھاش چندر بوس کی یو م پیدائش ہے۔
شو شل میڈیا پر نیتاجی کی آزاد ہند فوج کا قیام اور ملک کی آزادی کے جوانوں کو آزادی کا پیغام دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے جسکا ایک ایک لفظ موتی ہے، انہوں نے آزاد ہند فوج کے قیام کے وقت ملک کے نوجوانوں سے خطاب کیا تھا۔"تم مجھے خون دو میں تمہیں آزادی دوں گا" لیکن یہ نعرہ انگریزوں کے خلاف تھا۔ لاریب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج یہ جذبہ نوجوانوں میں ملک کے چہار طرف موحزن نظر آرہا ہے۔
لہذا ۔۔ نوشتئہ دیوار پڑھنے کی کوشش کیجئے۔!