احمد فوزان
شہریت ترمیمی قانون کے لئے مخالفت کی آواز ملک کے کونے کونے سے آ رہی ہے اور اسمیں حیرت نہیں کی اس قانون کو نافذ کرنے میں حکومت ہند کی بدنیتی اور جزویت ظاہر ہو چکی ہے. دہلی کے شاہین باغ نے مخالفت کی جو بنیاد ڈالی وہ آج ہر شہر میں دیکھی جا سکتی ہے. اسی پسمنزر لکھنؤ میں بھی احتجاج کی شروعات ہی لیکن قابل تعریف کی جس لئے لکھنؤ مشہور تھا ہمیں مظاہرے میں اسی شاندار تہذیب اور ادب کا اقس دیکھنے کو ملا. شروعاتی دو روز تک جس بدتمیزی کے ساتھ لکھنؤ پولیس وہاں موجود خواتینوں کے ساتھ پیش آئی وہ افسوس ناک ہے، لیکن اسکے بدلے خواتینوں نے پولیس کو جس انداز میں جواب دیا وہ اس تہذیب کے شہر سے ہی امید کی جا سکتی ہے. آپ تسور کریں کی کس قدر ظلم رہا ہوگا جب سرد کوہرے کی رات میں پولیس نے کمبل چھین لیا، آگ میں پانی ڈال کر بجھا دیا گیا، کھانے پینے کا سامان ضبط کر لیا گیا، حتیٰ کی انتظامیہ کی طرف سے ہر ممکن کوشش کی گئی کی خواتین کے ہجوم کو جمنے نہ دیا جائے. لیکن الله جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے. اس کالے قانون کے خلاف ہمارے شہر کی خواتینوں کے جوش اور جذبے کو سلام کرتا ہوں ساتھ ساتھ شرو کے مشکل وقت میں بیخوفی اور ہمّت کا ثبوت دینے کے لئے خاص طور پر موہترمہ شائستہ امبر, شعبی فاطمہ, سمییہ رانا، فوزیہ رانا، حنا خان، ناہید عقیل اور پوجا شکلا کو مبارکباد دیتا ہوں انکی وجہ سے ہی مظاہرے کو مضبوطی ملی اور دیگر لوگوں میں متحد ہوکر اپنی آواز بلند کرنے کا ہونسلا آیا. آج ہر مذھب اور عقائد کی خواتین وہاں موجود ہے اور کہیں پوجا اور ہوں کیا جا رہا تو کہیں روزہ رکھکر دعا مانگی جا رہی کی اس فرقوارانہ قانون کو ختم کیا جائے. پولیس انتظامیہ کو سوچنا چاہیے کی انکے گھر بھی خواتین ہیں اور انکو بھی مختلف موسم کے مجاز کا احساس ہوتا ہی ہے تو ان مظلوموں پر ظلم کرنے سے پہلے انسانیت کے مدےنظر اپنے گھر کی خواتینوں کے بارے میں سوچ لیا کریں. آخر خواتین کیوں بیٹھی ہیں، محظ اسلئے کی انکو اپنے ملک سے محبت ہے اور یہی ثابت کرنے کے لئے وہ سرد موسم میں تکلیف اٹھا رہیں ہیں. لیکن باوجود اسکے کی پولیس انپر ظلم کر رہی اور وہ معاملات کو نرم بناہے رکھنے کے لئے پولیس والوں کو ناشتہ بانٹ رہیں اور گلاب کا پھول دیکر انسے زیادتی نہ کرنے کی اپیل کر رہی ہیں.