معصوم مرادآبادی
عام آدمی پارٹی نے ایک بار پھردہلی اسمبلی پر اپنا پرچم لہرادیا ہے۔اس نے 70 رکنی صوبائی اسمبلی میں 62سیٹوں پرقبضہ کرلیا ہے اور بی جے پی محض آ ٹھ سیٹوں پر سمٹ گئی ہے ۔پچھلے الیکشن کی طرح اس بار بھی کانگریس دہلی اسمبلی میں اپنا کھاتہ نہیں کھول پائی ہے ۔یہ انتخابی نتائج ان طاقتوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہیں، جو اس ملک کو نفرت کے سیاہ سمندر میں غرق کردینا چاہتے ہیں۔دہلی کے عوام نے ترقی اور عوامی بہبود کے موضوع پر ووٹ دیا اور بی جے پی کو یہ احساس دلا دیا کہ وہ اب زیادہ دنوں تک عوام کو فرقہ وارانہ موضوعات پر بے وقوف نہیں بنا سکتی ۔بی جے پی نے دہلی کا الیکشن جیتنے کے لئے جو ہتھکنڈے اختیار کئے تھے وہی اس پر بھاری پڑے ہیں ۔وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کو" دہشت گرد " قرار دینے سے لے کر شاہین باغ کو "دوسرا پاکستان "قرار دینے تک ایسے تمام نعروں کی ہوا نکل گئی ہے جو عوام کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لئے ایجاد کئے گئے تھے ۔وزیر داخلہ امت شاہ نے ای وی ایم مشینوں سے شاہین باغ میں کرنٹ دوڑانے کی جو بات کہی تھی‘ وہی کرنٹ اب بی جے پی کے دہلی دفتر میں دوڑتا ہو ا نظر آرہا ہے ۔دہلی میں سب سے زیادہ زہریلے بیان دینے والے بی جے پی امیدوار کپل مشرا کو ان کے حلقہ انتخاب میں دھول چٹا دی گئی ہے اورعام آدمی پارٹی کے پانچوں مسلم امیدواروں نے شاندار کامیابی درج کرائی ہے ۔
یوں تو یہ بات صاف نظر آرہی تھی کہ دہلی کے عوام ترقی اور خوشحالی کے ایجنڈے پر ہی ووٹ دیں گے ، کیونکہ پچھلے پانچ سال کے دوران عام آدمی پارٹی کی سرکار نے اپنے کردار وعمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر کوئی حکومت عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا چاہے تو کوئی اس کے ہاتھ نہیں روک سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ کجریوال سرکارمرکز کی مودی سرکار کی آنکھوں میں ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے اور اس نے اس حکومت کو جڑسے اکھاڑنے کی کئی ناکام کو ششیں کی ہیں۔ اس بار بی جے پی نے عام آدمی پارٹی کو ہر قیمت پر اقتدار سے بے دخل کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔لیکن اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ بی جے پی دہلی سرکارکو عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں سے چھیننے کے لئے ایسے خوفناک ہتھکنڈے اختیا ر کرے گی کہ لوگ سیاست سے ہی پناہ مانگنے لگیں گے۔
بلاشبہ ہر سیاسی پارٹی چناؤ جیتنے کے لئے ہی میدان میں اترتی ہے اور اس کا بنیادی ہدف اپنے مدمقابل کو شکست فاش سے دوچار کرنا ہوتا ہے۔ لیکن چناؤ جیتنے کے بھی آخر کچھ اصول وضوابط ہیں ، جن کی صورت گری خود الیکشن کمیشن نے کررکھی ہے ۔ لیکن ملک میں پہلی بار یہ دیکھ کر لوگوں کو تعجب ہوا کہ الیکشن کمیشن نے بھی ان لوگوں کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی جو ماحول میں خطرناک قسم کا زہر گھول رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نفرت پھیلانے والے اپنے اوپر لگائی گئی عارضی پابندی کا دورانیہ گذرنے کے بعد اور زیادہ خطرناک تیوروں کے ساتھ سامنے آئے اور انھوں نے کسی کی بھی پروا نہیں کی۔ مودی سرکار کے اونچے عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے لب ولہجہ کو دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ اب ہم ایک ایسی اندھی سرنگ میں داخل ہو چکے ہیں‘ جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہے۔ایک وزیر محترم عوامی جلسے میں دیش کے غداروں کو گولی مارنے کی تلقین کررہے تھے تو دوسرے وزیرشاہین باغ کو پاکستان سے تشبیہ دے کر وہاں سرجیکل اسٹرائک کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ دوسروں کو تو جانے دیجئے خود ملک کے انتہائی چاق وچوبند وزیر داخلہ کی زبان ایسی تھی کہ وہ نظم ونسق قایم کرنے والی ایجنسیوں کی گرفت کا موضوع ہونا چاہیے تھی ۔ وزیرداخلہ دہلی کے عوام کو ای وی ایم کا بٹن اتنی طاقت سے دبانے کا مشورہ دے رہے تھے کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ تک دوڑ جائے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ دہلی کے عوام نے محترم وزیر داخلہ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے شاہین باغ میں کرنٹ کیوں نہیں دوڑایا لیکن اتنا ضرور ہے کہ نتائج سے ایک دن پہلے ان کی انتہائی فرض شناس پولیس نے جامعہ کے طلبا کو لہولہان کرکے اپنی شکست کی پیشگی بھڑاس نکالی۔
سبھی جانتے ہیں کہ حکمراں بی جے پی نے چھوٹی سی ریاست دہلی کا الیکشن جیتنے کے لئے اپنی ساری توپیں استعمال کیں ۔ یہاں تک کہ خود وزیراعظم نریندر مودی کو میدان میں اترنا پڑا ۔ اپنی پارٹی کے دیگر لیڈروں کی طرح انھوں نے بھی اسی توہین آمیز انداز میں شاہین باغ کو نشانے پر لیا۔ انھوں نے کہا کہ شاہین باغ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ ملک کو کمزور کرنے کا ایک خطرناک تجربہ ہے۔ اتنا ہی نہیں انھوں نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر اس کی خطرناکی کو بیان کیا۔ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ نے شاہین باغ کے خلاف گھر گھر جاکر ووٹ مانگے۔ ممبر پارلیمنٹ پرویش ورما نے کہا کہ شاہین باغ کے لوگ آپ کی بہن بیٹیوں کو ’ریپ‘ کریں گے۔اترپردیش کے انتہائی ’ہونہار‘ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی دہلی کی فضاؤں کو زہر آلودہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ملک میں اس سے پہلے شاید ہی کوئی ایساالیکشن گذرا ہو جس میں خودحکمراں جماعت کے لوگوں نے ہی زہر اگلنے کی حد کردی ہو۔یوگی آدتیہ ناتھ نے بریانی جیسی نفیس غذا کو ہی نفرت پھیلانے کا ذریعہ بنالیا اور کہا کہ کجریوال دہلی کے شاہین باغ میں جن لوگوں کو بریانی کھلارہے ہیں‘ ہم نے انھیں اپنے صوبے میں لاٹھیاں اور گولیاں کھلائی ہیں ۔ انھوں نے شاہین باغ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیش کا غدار کہنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
ملک دشمنی ، غداری اور دہشت گردی سے جوڑنے کا وہ کون سا الزام تھا جو شاہین باغ کے مجبور ولاچار لوگوں پر نہیں لگایا گیا۔ انھیں انتہائی خطرناک دہشت گرد تنظیم داعش سے جوڑا گیا۔ ان کے انتظام وانصرام میں شریک لوگوں کے بارے میں یہ جانچ بھی کی گئی کہ انھیں کہاں سے فنڈنگ ہورہی ہے اور کون سی طاقتیں انھیں رسد فراہم کررہی ہیں۔ان تمام گھناؤنے الزامات کا ایک ہی مقصد تھا کہ عام آدمی پارٹی کو شاہین باغ سے جوڑ کر اس کے ووٹ بینک کو منتشر کردیا جائے ۔ لیکن الیکشن کے نتائج نے ثابت کردیا کہ دہلی کے عوام پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور انھوں نے ایک بار پھر دہلی کا اقتدار عام آدمی پارٹی کو سونپ دیا ۔ بی جے پی اس بات پر خوش ہوسکتی ہے کہ اس کی سیٹیں تین سے بڑھ کر آ ٹھ ہوگئی ہیں لیکن اس نے اس الیکشن میں اپنی جتنی طاقت جھونک تھی ، اس اعتبار سے اس کو پوری 70 سیٹوں پر کامیابی ملنی چاہیے تھی کیونکہ اس کے نزدیک یہ الیکشن ملک کے غداروں اور وفاداروں کے درمیان تھا۔ اس الیکشن کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ سے بھی تشبیہ دی گئی تھی ۔ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ اس میچ میں ہندوستانی ٹیم کو شکست ہوئی ہے لیکن ہاں اتنا ضرور ہے کہ جن کے اعصاب پر پاکستان سوار تھا وہ ’کلین بولڈ ‘ضرور ہوگئے ہیں۔