علی گڑھ، : علی گڑھ مسلم ےونیورسٹی کے مرکز تحقیقات فارسی کے زیر اہتمام ©’سترہویں صدی کا فارسی ادب ‘ عنوان سے اےک سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کاانعقادکیا گیاجس کے افتتاحی اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے پرووائس چانسلر ،پروفیسر اختر حسیب نے ہندوستان میں فارسی زبان کی اہمیت و افادیت پر گفتگو کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس سمینار میں آئے مندوبین فارسی ادب کی نئی جہات کی تلاش میں کوششیں کریں گے۔
اپنے افتتاحی خطبہ میںایران کلچر ہاو ¿س کے کلچرل کاﺅنسلرڈاکٹر علی ربانی نے کہا کہ۷۱ویں صدی ہندوستان میں فارسی ادب کی ترقی کے لحاظ سے نہایت اہم دور ہے۔ یہ وہ عہد ہے جس میں تاریخ ، تصوف، ملفوظاتی ادب، غرض کہ منثور ومنظوم ہر میدان میں اہم کارنامے انجام پائے۔
کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے دہلی ےونیورسٹی کے پروفیسر ظہیر حسین جعفری نے کہا کہ فارسی زبان و ادب کے فروغ میں سترہویں صدی ایک اہم دور رہا ہے ۔ بابر، ہمایوں اور اکبر کے دور میں فارسی نے جو ترقی حاصل کی اس سے اس صدی میں اور بھی مضبوطی آئی۔فارسی ادب کے ساتھ ساتھ آرٹ ،کلچر اور لٹریچر کو فروغ حاصل ہوا۔
اس موقع پریزد یونیورسٹی ، ایران کے پروفیسر کاظم کہدوئی نے اکبر کے عہد میں سنسکرت کتابوں کے فارسی تراجم سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سترہویں صدی عیسوی کے ہندوستانی فارسی ادب میں اس کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی۔
نائب کلچرل کاﺅنسلر اور ایران کے معروف ومشہور شاعر ڈاکٹر علی رضا قزوہ نے صائب کے حوالے سے جامع اور تفصیلی گفتگو کی اور ہندوستان میں فارسی ادب کے سترہویں صدی میں فروغ اور گسترش پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔
مرکز تحقیقات فارسی کے ڈائریکٹر اور سمینار کنوینر پروفیسر سید محمد اسد علی خورشید نے سےمینار کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں ۷۱ویں صدی میں فارسی ادب کو کافی ترقی ملی۔ اس عہد میں متعدد بیش قیمتی فارسی تصانیف وجود میں آئیں جن کی اہمیت پرروشنی ڈالے جانے کے ساتھ ساتھ ان کا تعارف بھی ضروری ہے۔اس دور میں شعرا کی بھی خاصی تعدادہے جن میں کلیم کاشانی، نظیری نیشاپوری، طالب آملی کے نام اہم ہےں۔ نثر میں بھی اس دور میں نمایاں کارنامے انجام د یئے گئے جن میں تذکرہ، تاریخ، تصوف سبھی موضوعات پر اہم کتابیں وجود میں آئیں۔
ڈین، فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر مسعود انور علوی اور مشیر، مرکز تحقیقات فارسی پروفیسر آزرمی دخت صفوی نے بھی خطاب کیا ۔
افتتاحی جلسہ میں مرکز کی شائع کردہ پانچ کتابوں کی رسم اجرا عمل میں آئی جن میں شکوفای ادبیات فارسی کی دو جلدیں، نزہة الارواح، مناقب الاسرار اور برہان اودھ شامل ہیں۔ ایران کے مشہور و معروف فوٹو گرافر محمد یوسفی نے اپنی تصاویر کی نمائش لگائی جس کا افتتاح ڈاکٹر علی ربانی اور پروفیسر سید محمد اسد علی خورشید نے کیا ۔
صدر شعبہ ¿ فارسی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور ڈاکٹر محمد احتشام الدین نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔