بارہ بنکی۔شہر کے دیوا روڈ نزد آنند بھون نیو۔ پلے۔وے جونیئر ہائی اسکول میں بزم غیاث کی پہلی طرحی نشست کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی صدارت تحصیل فتح پور کی معروف شخصیت جناب چودھری وقار نے کی۔نظامت اکمل قدوائی نے کی۔ مہمان ذی وقار کی حیثیت سے رام پرکاش بےخود موجود تھے۔جبکہ مہمان خصوصی میں رضوان فاروقی،فراز قدوائی،راسٹریہ سہارا کے پرویز احمد،ضمیر فیضی،ڈاکٹر چودھری جاوید،طارق جیلانی موجود تھے۔نشست سے قبل اپنے صدارتی خطبے میں چودھری وقار نے آنجہانی غیاث الدین قدوائی کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ غیاث صاحب تمام خوبیوں کے مالک تھے۔خود شاعر نہیں تھے لیکن کسی شعر کا مصرع اولیٰ سننے کے بعد مصرے ثانی کیا ہوگا اس کا اندازہ انہیں ہوجاتا تھا۔ غیاث صاحب ایک بہترین قانون داں ہونے کے ساتھ۔ساتھ اچھے عوامی لیڈر اور بہترین انسان بھی تھے۔خطبے کی اخیر میں غیاث الدین قدوائی کے لئے دعائے مغفرت کی گئی۔ بزمِ غیاث کی پہلی طرحی نشست کے مصرع طرح( عشق کرتا ہوں تو پھر عشق جتانا ہے مجھے) پر تمام شعراء نے طبع آزمائی کرتے ہوئے یے اپنے۔اپنے کلام پیش کیے۔پسند کیے جانے والے اشعار نذر قارئین ہیں۔
اس کو آداب محبت کے سکھانا ہے مجھے۔
ایک کافر کو مسلمان بنانا ہے مجھے۔ رام پرکاش بےخود۔
بال خود داری کے شیشے میں جہاں آتا ہو۔
ایسی محفل میں نہ آنا ہے نہ جانا ہے مجھے۔
رضوان فاروقی۔
طنز کے تیر سے یوں خود کو بچانا ہے مجھے۔
وہ منافق ہے مگر ہاتھ ملانا ہے مجھے۔
ضمیر فیضی۔
چاک پر دیکھنا تنہائی ابھر آئے گی۔
ہجر کے آب میں کمہار نے سانا ہے مجھے۔
عسمان مینائی۔
ظلم کے خوف سے جو خوفزدہ ہیں ان میں۔
سر فروشی کی تمنا کو جگانا ہے مجھے۔
ریحان بارہ بنکی۔
مصلحت حرص و ہوس کارے ریا بغض و حسد۔
ایسے ہر داغ سے دامن کو بچانا ہے مجھے۔
احسن اعظمی۔
ذہن انساں سے اندھیروں کو مٹانا ہے مجھے۔
اک چراغ ایسا محبت کا جلانا ہے مجھے۔
سلیم تابش۔
درس کربل پے عمل کر کے دکھانا ہے مجھے۔
سر نہیں حرمتے دستار بچانا ہے مجھے۔
ھزیل لعل پوری ۔
اسکا افسوس رہے گا مجھے تا عمر وقار۔
اس نے جانا ہے مگر دیر سے جانا ہے مجھے۔
وقار بارہ بنکوی۔
جاننا چاہتا ہوں میرا مقدر کیا ہے۔
اک نجومی کو ترا ہاتھ دکھانا ہے مجھے۔
فیض آتش۔
اپنے اجداد کی تاریخ بتانا ہے مجھے۔ ظالمے وقت کو پھر دھول چٹانا ہے مجھے۔
مظہر عباس۔
ایک دن چھوڑ کے جانا ہے سبھی کو دنیا۔
جانتے سب ہیں مگر یاد دلانا ہے مجھے۔
عرفان بارہ بنکوی۔
ایک بار اور مری پیاس بجھا دے ساقی۔
کون سا در پہ ترے روز ہی آنا ہے مجھے۔
آدرش بارہ بنکوی۔
چند پیسوں میں جو مدہوش ہیں ان سے کہہ دو۔
ان کی غربت کا ابھی یاد زمانہ ہے مجھے۔
نفیس بارہ بنکوی۔
رات تاریک ہے اور صبح کی امید نہیں۔
اپنی پلکوں پہ ستاروں کو سجانا ہے مجھے۔
نفیس احمد پوری۔
بس ہے منصور کی فریاد کی مجنوں کی تلاش۔
عشق کے نام پہ اک شہر بسانا ہے مجھے۔
ڈاکٹر فداحسین۔
ڈھال کر فکر کو محنت کے کسی سانچے میں۔
لفظے مشکل کو اب آسان بنانا ہے مجھے۔
زاہد بارہ بنکوی۔
عالمے عشق کے میں روضے پے آ بیٹھا ہوں۔
ہر گلی شمع محبت کی جلانا ہے مجھے۔
ڈاکٹر فرقان بارہ بنکوی۔
سوچتا ہوں کہ مرے دل کو سکوں مل جائے۔
ایک روتے ہوئے بچے کو ہنسانا ہے مجھے۔
شاد بارہ بنکوی۔
بے کسی اپنی تبسم سے چھپانا ہے مجھے۔
غم زدہ رہ کے زمانے کو ہنسانا ہے مجھے۔
انور سترکی۔
رفتہ رفتہ تری یادوں کو بھلانا ہے مجھے۔
اس طرح سے دل ناداں کو منانا ہے مجھے۔
مختار بارہ بنکوی۔
ان کے علاوہ دیگر شعرا نے بھی اپنے کلام پیش کیے۔
اس موقع پر نیو پلے وے اسکول کے منیجر عبدالرحمان عرف للو کے علاوہ گیانیش شکلا، شامق میراج، چاند بھائی، مختار چودھری، رنجے شرما، آصف ٹی ٹی، خالد حسن،کامران علوی،فراز احمد،جمی نیتا، سید ہارث،ناوید معراج ،بوگی شکلا، ندیم دیوا،عبداللہ رحمان، عابد علی، عبداللہ دیوا،محمد فیصل پولیس، سید عاصم علی کے علاوہ تمام شائقین موجود تھے۔نشست کے اختتام پر منتظمین عبداللہ رحمان نے سبھی شعراء اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔