نعت گوئی جذبہ¿ عقیدت اور وارفتگی¿ رسول کا حسین اظہارہے :مولانا علاءالدین ندوی

 



احساس ایجوکیشنل اینڈسوشل ویلفیر فاﺅنڈیشن ٹرسٹ کے زیر اہتمام ’ہندوستان میں نعت گوئی کی روایت آزادی کے بعد‘ کے موضوع پر سمینار
 لکھنو ¿،نعت گوئی جذبہ ¿ عقیدت اور وارفتگی ¿ رسول کا حسین اظہار ہے۔وسیع تناظر میں نعت کہنا ذکر رسول ہے ، جو عبادت کی قبیل سے ہے اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ عبادت کے اصول و قیود اور شکل و ہیئت شریعت نے متعین کر دیئے ہیں ۔جن میں ہیرا پھیری کرنے کی اجازت کسی بندے کو نہیں ہے۔ان خیالات کا اظہار مولانا علاءالدین ندوی نے احساس ایجوکیشنل اینڈسوشل ویلفیر فاﺅنڈیشن ٹرسٹ کے زیر اہتمام ہندوستان میں نعت گوئی کی روایت آزادی کے بعد کے موضوع پر منعقدہ سمینار میں کلیدی خطبہ کے دوران کیا۔
  سمینار کا اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی کے مالی تعاون سے یہاں لکھنو ¿ کے اکادمی آف ماس کمیونی کیشن میں کیا گیا۔صدارت کے فرائض پروفیسر سید محمد شفیق اشرفی نے انجام دیے اور مہمانِ خصوصی کے طور پر جناب محسن خاں اور جناب پرویز ملک زادہ شریک ہوئے۔محمد سعید اختر نے تلاوت کلام پاک کی اورمحترمہ فرزانہ اعجاز، رابعہ قریشی ، عذرا رضوی نے بار گاہِ رسالت میں عقیدتوں کا نذرانہ پیش کیا۔سمینار کی نظامت ڈاکٹر عمیر منظر نے انجام دی۔ اس موقع پر مہمانوں کی خدمت میں گلدستہ پیش کرکے ان کا خیر مقدم کیا گیا۔ سمینار کے کنوینر اویس سنبھلی نے حاضرین کا استقبال کیا اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے دائریکٹر ڈاکٹر شیخ محمد عقیل کا پیغام پڑھ کر سنایا۔
 مولانا علاءالدین ندوی نے کلید خطبہ جاری رکھتے ہوئے ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سیرت رسول کی سرسری معلومات رکھنے والے عقیدت سے مغلوب اور کرشماتی قسم کے واقعات و روایات پر بلا درایت اعتماد کر لیتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ شہرت یا فتہ جید علما بھی جب نعت گوئی فرماتے ہیں تو اظہار محبت میں بے جا عقیدت اور غلو کی سرحد تک جا پہنچتے ہیں۔
 مولانا علاءالدین ندوی نے آزادی سے پہلے اور بعد کے نعت گو شعراءکا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سخت ترین حالات میں بھی شعراءنے نعت گوئی کا سلسلہ جاری رکھا ۔تقسیم ہند کے بعد ہندو پاک کے شعرا میں شاید ہی اردو کا کوئی بدنصیب شاعر ہو جس نے اس میں طبع آزمائی کی سعادت نہ حاصل کی ہو ۔


 


انھوں نے اس موقع پر نشور واحدی، عامر عثمانی ، عروج قادری ، حفیظ بنارسی ، عمیق حنفی ،کلیم عاجز ،حفیظ میرٹھی ، بیکل اتساہی ، ساجد صدیقی ،والی آسی ، طفیل احمدمدنی ، ادیب حسن ادیب کا خاص طور پر ذکر کیا۔ جنہوں نے با ضابطہ نعتیں کہی ہیں اور جن کے نعتیہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ ابو المجاہد زاہد ، عرفان صدیقی ، زیب غوری ، عزیز بگھروی ، طلحہ رضوی برق ، رو ¿ف خیر ، مسعود جاوید ہاشمی ، جوہر بلیاوی اور اسعد بدایونی نمایاں نعت گو شعرا ہیں، جنہوں نے بڑی عقیدت و محبت سے نعتیں کہی ہیں اور کہہ رہے ہیں ۔ اس موقع پر انھوں نے فن نعت کی دیگر باریکیوں اور موضوع سے متعلق بعض اہم چیزوں پر روشنی ڈالی۔
 صدارتی خطاب میں پروفیسر سید محمد شفیق اشرفی نے نعتیہ شاعری کو فروغ دینے اور نئی نسل تک اس کو حسن کو خوبی کے ساتھ پہنچانے پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا یہ بہت ہی بیش قیمت سرمایہ ہے جس سے ہمیں نئی نسل کو متعارف کرانے اور قریب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔اس موقع پر انھوں نے لکھنو ¿ میں نعت گوئی کی روشن روایت کا بھی ذکر کیا۔
 مہمان خصوصی کے طورپر خطاب کرتے ہوئے جناب پرویز ملک زادہ نے سمینار کو ایک عمدہ کوشش سے تعبیر کیا اور کہا کہ لکھنو ¿ نعتیہ ادب کے حوالے سے بھی بہت محترم رہا ہے۔اس موقع پر انھوں نے لکھنو ¿ میں برپا ہونے والی اہم نعتیہ نشستوںکا بھی ذکر کیا۔
 ڈاکٹر مخمور کاکوروی نے درد کاکوروی کی نعتیہ شاعری کو موضوع بنایا اور کہا کہ دبستان لکھنو ¿ کے نعتیہ ادب میں جن شاعروں کا نام اور ان کا فنی کمال شامل رہے گا ان میں درد کاکوروی بھی ہیں۔ڈاکٹر ہارون رشید نے کہاکہ شارق لاہرپوری کی نعتیہ شاعری موضوع اور فن دونوں کا خوبصورت احاطہ کرتی ہے۔ ان کی نعتوں میں منقبتی اشعار بھی نہایت عمدہ ہیں انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی شاعری عشق محمد، عشق اصحاب و اہلبیت کا ثمرہ اور ان کی خلوص نیت کی آئینہ دار ہے اسی وجہ سے ان کے یہاں اثرانگیزی بھی ہے اور کلام کا ایک خاص رنگ و آہنگ بھی۔ڈاکٹر پروین شجاعت نے عصرحاضر کی نمائندہ نعت گو شاعرات کے حوالے سے مقالہ پیش کرتے ہوئے صبیحہ سنبل، ڈاکٹر رخسانہ لاری، سلمیٰ حجاب اور فرزانہ اعجاز کی نعتیہ شاعری پر روشنی ڈالی۔انھوں نے کہا کہ ان کی شاعری میں عقیدت و محبت کے ساتھ سلاست و روانی اور نعتیہ ادب و آداب کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔ڈاکٹر عمیر منظر نے عصر حاضر کے نعتیہ شاعروں کے حوالے مقالہ پیش کیا۔ انھوں نے ڈاکٹر تابش مہدی ، سعد امروہوی، افسرامروہوی اور ناز قادری کی نعتیہ شاعری پر گفتگو کی۔اور بتایا کہ ان شعراءکے یہاں نعتیہ مضامین کا تنوع اور فنی دسترس کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ان کے یہاں نغمگی بھی ہے۔ روانی اور کیفیت میںبھی ان شعراءنے رسالت و الوہیت کے فرق کو قائم رکھا ہے اور یہی چیز انھیں اپنے معاصرین میں ممتاز کرتی ہے۔ڈاکٹر سرفراز احمد خاں نے نعتیہ ادب کے حوالے سے اردو کے شعری ذخیرہ کو بہت ممتاز قرار دیا اور کہا کہ معراج، دیدار مدینہ اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و فضائل پر شعراءنے اس کثرت سے شعر کہے ہیں کہ اس کے لیے کئی دواوین بھی کم پڑ جائیں گے۔ڈاکٹر یاسر جمال نے کہا کہ ہندوستان کی جدید نعتیہ شاعری میں مقامی رنگ و آہنگ ، مقامی بولیوں میں نعت نبی کا وضح رجحان ہے اسی طرح سانیٹ اور دوہا جیسی اصناف میں بھی نعتیہ کلام موجود ہے۔لکھنو ¿ یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر حمیرا عالیہ نے ابوالمجاہد زاہد کی نعت گوئی پر مقالہ پڑھا۔ انھوں نے کہا کہ ابوالمجاہد زاہد کی نعتیں ذکر ، فکر اور عمل کی بہترین مثال ہیں۔ انھوں نے محبت کو فکر کے سانچے میں ڈھال کر جب نعت لکھی تو و ہ اردو ادب کا بیش قیمت ذخیرہ قرار پائی۔مانو کے ریسر اسکالر شاہد حبیب نے فضا ابن فیضی اور واحد نظیر کی نعت گوئی پر مقالہ پیش کیااور کہا کہ ان کے یہاں تخلیق کی فنی سطح بہت بلند ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ بہت سے پیچیدہ مضامین کو بھی انھوں نے نعت کے پیرایہ میں ڈھال دیا ہے۔سمینار میں ڈاکٹر شاہ محمد فائز،راشد خاں ندوی، عطیہ بی، اطہرحسین، محمدسعید اختر، محمد ارشد نے بھی نعت گوئی کے حوالے سے مقالات پیش کیے۔پرگرام کا اختتام اویس سنبھلی کے شکریہ پر ہوا۔
 پروگرام میں قمرسیتاپوری،ڈاکٹر منصور حسن خاں،ڈاکٹر ظفرانہ، اعجاز حسین، جیلانی خان علیگ، ڈاکٹر مسیح الدین خاں، زینت جہاں، نادرہ پروین، ضیاءاللہ صدیقی، عبدالبائث، احرار الہدی شمس ندوی، صدام حسین، وسیم احمد، شبیر احمد ملک، معین الدین ، امان شریف انصاری، ابوزید، سعید اختر مدنی، حمزہ، عبیدوغیرہ نے خاص طور پر شرکت کی۔


     


ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی