محمد خالد
اس عارضی زندگی میں ہر شخص کی بنیادی ضرورت ہے کہ وہ کسی ملک کا باقاعدہ اور دستوری شہری ہو اور ملک کے دستور کے مطابق شہریت کے حقوق و فرائض کا اختیار رکھتا ہو اور جب کبھی اس کو اپنے حقوق کی حق تلفی کا احساس ہو تو وہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے ملک کے دستور اور قانون کی بنیاد پر جدوجہد کرے مگر اس شہری حق کے ساتھ ہی مومن کا معاملہ بہت مختلف ہے. مومن پر تو لازم ہے کہ وہ زندگی کے کسی بھی معاملے کے حل کے لئے جب کوشش کرے تو اس بات کا خاص خیال رکھے کہ اس کی منصوبہ بندی اور طریقہ کار اللہ کی ہدایت اور نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہو.
اللہ رب العزت نے ہم کو نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کا امتی بنا کر خیر امت میں شامل فرمایا ہے اور اب اللہ کی عدالت میں ہمارا معاملہ اسی لحاظ سے ہونا ہے لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہمارے عمل کے نتیجے میں معاشرے پر پڑنے والے اثرات کے سلسلے میں ہم بہت زیادہ محتاط رہیں تاکہ ہمارا عمل انسان کو اللہ کے دین کی طرف متوجہ کرنے والا ثابت ہو نہ کہ دین کی غلط سمجھ کا ذریعہ بن جائے.
ہم کو غور کرنا چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ ملک کے تقریباً سبھی طبقات کے لوگ اس شہریت ترمیمی قانون کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں مگر تصویر یہ پیش کی جا رہی ہے کہ بس مسلمان ہی مخالفت کر رہے ہیں، بقیہ تھوڑے سے لوگ ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور اس تصویر کو بنانے کی وجہ صرف و صرف اسلام کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے. شرپسند لوگ اپنے منصوبے میں اس لئے کامیاب دکھ رہے ہیں کیونکہ ہم نے بھی اس معاملے کو دوسرے افراد اور تنظیموں کی طرح صرف ایک سماجی مسئلہ سمجھ کر حل کرنے میں خود کو کھپا رکھا ہے جب کہ یہ مسئلہ احترام انسانیت کا ہے کیونکہ بحیثیت انسان سب برابر ہیں. شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو دین کے بجائے مذہب بنا دیا ہے اور پھر مذہب کی بنیاد پر قوم بن گئے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم ہر انسان کو جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر اور کوشش کرتے، ہم نے انسانوں میں تفریق کرنا اپنی ذمہ داری سمجھ لیا ہے اور اس انسانی تفریق کی وجہ سے مسئلہ شہریت ایک سماجی مسئلہ کی جگہ مذہبی مسئلہ بن گیا ہے. اگر ہم نے اللہ کی دی ہوئی "خیر امت" کی حیثیت کے مطابق سبھی انسانوں کی نجات کا منصوبہ بنایا ہوتا اور اس پر عمل پیرا رہے ہوتے تو کیا آج کے جیسے حالات کا وجود میں آنا ممکن ہو پاتا، یقیناً نہیں.
تحفظ شہریت کی جاری اس مہم کا بھرپور جائزہ لے کر نئے سرے سے حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے. ایک ایسی حکمت عملی جس سے افہام و تفہیم کا راستہ کھل سکے کیونکہ کسی بھی تنازعہ کو حل کرنے کا بہترین طریقہ افہام و تفہیم ہے جس میں دونوں فریق کی عزت نفس محفوظ رہتی ہے.
اللہ کی ہدایت اور نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہر انسان ہمارے حُسن سلوک کا حقدار ہے خواہ اس کا سلوک ہمارے ساتھ جیسا بھی ہو.
شیطان مردود نے ہم کو انسانوں میں گروہ بندی کی راہ دکھائی اور ہم بغیر کسی تکلف اور اچھا برا کی تمیز کئے بھاگے چلے جا رہے ہیں. غیر تو غیر اپنوں میں بھی ہم مختلف قسم کی عصبیتوں کے شکار ہیں.
اللہ ہم سب کو شیطان کے شر و فتنوں سے محفوظ رکھے اور ہم کو اپنے معاملات کا جائزہ لینے اور اپنا محاسبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے. ہم دوسروں کے مقابل اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے اللہ سے رجوع کرنے اور اپنی مغفرت کی دعا کرنے والے بنیں. اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین.
، 7 فروری 2020