معصوم مرادآبادی
شاہین باغ میں دھرنے پر بیٹھی خواتین نے سپریم کورٹ کے مذاکرات کاروں پر واضح کردیاہے کہ جب تک شہریت ترمیمی قانون واپس نہیں ہوگا ، وہ اپنی جگہ پر بیٹھی رہیں گی۔دومہینے سے جاری اس بے مثال احتجاجی تحریک کو ختم کرنے کے لئے سپریم کورٹ میں جو عرضی داخل کی گئی تھی ‘اس پر کوئی فیصلہ صادر کرنے سے قبل عدالت نے احتجاج کرنے والی خواتین کا موقف جاننے کے لئے دو سینئر وکیلوں کو مذاکرات کار مقرر کیا تھا۔ان مذاکرات کاروں نے مظاہرین کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کی تحریک جاری رہے لیکن شاہین باغ کی سڑک پر آمدورفت بحال کردی جائے، لیکن مظاہرہ کرنے والی خواتین کا موقف یہ ہے کہ اگر انھوں نے ایسا کیا تو ان کی کوئی بات نہیں سنی جائے گی کیونکہ حکومت اس احتجاجی تحریک کو طاقت کے بل پر کچلنا چاہتی ہے۔شاہین باغ سے تحریک پاکر ملک میں سینکڑوں مقامات شاہین باغ بن گئے ہیں اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تحریک نے ملک گیر شکل اختیا رکرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہین باغ کی خواتین اپنا دھرنا ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔حالانکہ مذاکرات کاروں نے احتجاجی خواتین کویقین دلایا کہ سپریم کورٹ ان کے ساتھ ہے اور اسی لئے انھیں یہاں بھیجا گیا ہے، لیکن وہ اپنے اس موقف پر اٹل ہیں کہ جب تک شہریت ترمیمی قانون واپس نہیں لیا جاتا وہ اپنی جگہ سے نہیں ہٹیں گی۔ فی الحال سڑک کا ایک حصہ آ مدورفت کے لئے کھول دیا گیا ہے جو پولیس نے اپنی صوابدید پر بند کیا تھا۔
مذاکرات کاروں کے سامنے اپنا درد بیان کرتے ہوئے یہ احتجاجی خواتین آبدیدہ تو ہوئیں ، لیکن انھوں نے پوری ہمت اور جرات کے ساتھ اپنے اس کرب کو بیان کیا‘ جو اس کالے قانون کے بعد ان کے وجودمیں سرایت کرگیا ہے۔ کئی مواقع ایسے بھی آئے کہ مذاکرات کار ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے اورایڈوکیٹ سادھنا رام چندر ن احتجاجی خواتین کی درد ناک داستان سن کر خود اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے۔ہمیں نہیں معلوم کہ سپریم کورٹ ان کی رپورٹ پر کیا رخ اختیار کرے گا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان مذاکرات کاروں کی شاہین باغ میں موجودگی نے احتجاجی خواتین کو اس بات احساس تو کرایا ہے کہ اس ملک میں کوئی ایسا بھی ہے جو ان کی بات سننا چاہتاہے اور جو انسانوں اور حیوانوں کے درمیان تمیز کرنا جانتا ہے ۔ ورنہ اب تک تو سرکار کے تمام ذرائع بشمول ذرائع ابلاغ یہ تاثر دینے میں اپنی توانیاں خرچ کررہے ہیںکہ شاہین باغ دراصل بدی کا ایک ایسا محور ہے جس کی کوکھ سے ملک کے اندر ساری خرابیا ںجنم لے رہی ہیں اور بدی کے اس محور سے نجات پانے کاایک ہی طریقہ ہے کہ وہاں بلڈوزر چلادیا جائے۔
جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں ہرشخص کو اپنی بات کہنے کا حق ہوتا ہے اور اگر کوئی شہری کسی قانون یا حکومت کے کسی عمل سے یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے بنیادی حقوق کی پامالی ہورہی ہے تووہ پرامن طریقہ سے اپنا احتجاج درج کراسکتا ہے ۔ اس کی اجازت اسے ملک کا قانون اور دستور بھی فراہم کرتا ہے ۔لیکن ملک میں پہلی بار ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہاں جمہوریت اور بنیادی آزادی ختم ہورہی ہے اور حاکمان وقت اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچل دینا چاہتے ہیں ۔ انھیں اس وقت صرف اپنی ہی آوازیں پسند آرہی ہیں اور مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو وہ غداری اور وطن دشمنی سے تعبیر کررہے ہیں ۔اس ملک میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دس دس سال کے بچوں کو حب الوطنی کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے اور ان کے والدین پر غداری کے مقدمات قایم کئے گئے ہیں۔ کرناٹک کے بیدر میں شاہین پرائمری اسکول کی ہیڈ مسٹریس فریدہ بیگم اور ایک گیارہ سالہ بچے کی ماںنجیب النساء کو ایک لاکھ روپے کے مچلکہ پر مشروط ضمانت دی گئی ہے۔ انھیں آرایس ایس کارکن نیلیش کی اس شکایت پر گرفتار کیا گیا تھا کہ اسکول کے سالانہ پروگرام میں بچوں نے جو ڈرامہ پیش کیا تھااس سے ملک دشمنی کی بو آتی تھی اور اس ڈرامے میں وزیراعظم کی توہین بھی کی گئی تھی۔یہ ڈرامہ سی اے اے کی مخالفت میں اسٹیج کیا گیا تھا۔ غرض یہ کہ اس وقت ملک میں جو کوئی سی اے اے قانون کے خلاف آوازبلند کررہا ہے، اسے آنکھ بند کرکے ملک دشمن اور غدار وطن قرار دیا جارہا ہے اور یہ کام ان صوبوں میں بے دھڑک انجام دیا جارہا ہے جہاں بی جے پی کی سرکاریں ہیں ۔ اس معاملہ میں ملک کا سب سے بڑا صوبہ اترپردیش سب پر سبقت لے گیا ہے‘ جہاں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے پورے صوبے کے اندر انتظامیہ اور پولیس کو یہ احکامات جاری کررکھے ہیں کہ جو کوئی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف زبان کھولے اس کی زبان ہی کاٹ لی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اترپردیش کے جن جن شہروں میں اس سیاہ قانون کے خلاف مظاہرے اور دھرنے ہورہے ہیں ، وہاں امتناعی احکامات نافذ کردئیے گئے ہیں اور احتجاج میںشرکت کرنے والی خواتین اور مردوں پر سنگین دفعات کے تحت مقدمات قایم کئے جارہے ہیں اور ان کی املاک قرق کی جارہی ہیں ۔ اترپردیش میں سرکاری مشینری کے ظلم وجبر کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ گورکھپور اسپتال میں سینکڑوں بچوں کی جانیں بچانے کے لئے شہرت پانے والے ڈاکٹر کفیل کو محض اس لئے قومی سلامتی ایکٹ کے تحت گرفتار کرلیا گیا ہے کہ انھوں نے علی گڑھ میں سی اے اے مخالف احتجاجی مظاہرین سے خطاب کیا تھا۔ اس معاملہ میں عدالت نے انھیں ضمانت دے دی تھی اور وہ رہا ہوکر باہر آرہے تھے لیکن اس سے پہلے ہی ان پر این ایس اے لگانے کے احکامات جاری کردئیے گئے تاکہ انھیں ضمانت ہی نہ مل سکے اور جیل میں سڑتے رہیں۔
یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ سیاہ قانون کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس کی گولی سے سب سے زیادہ موتیں بھی اترپردیش میں ہی ہوئی ہیں ۔بے گناہ نوجوانوں کی ہلاکت پر اسمبلی میں اپوزیشن کے احتجاج کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ یوگی نے کہا ہے کہ ’’ کوئی مرنے کے لئے آہی رہا ہے تو زندہ کہاں سے ہوجائے گا۔‘‘ یہ وہی یوگی آدتیہ ناتھ ہیں جنھوںنے حکمرانی کے تمام اصولوں کو پامال کرتے ہوئے کہا تھا کہ مظاہرین سے انتقام لیا جائے گا۔ بی جے پی کے لیڈروں نے حاکمانہ غرور میں مبتلا ہوکر ملک کے کمزور طبقوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک شروع کردیا ہے ۔ وہ کھلے عام ایسے قابل اعتراض بیانات دے رہے ہیں جن پر قانون کو اپنا کام کرنا چاہئے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نظم ونسق قایم کرنے والی مشینری اپنی آئینی ذمہ داریوں کو نبھانے کی بجائے خود قانون اور دستور کا مذاق اڑانے والوں کی معاون ومددگار بنی ہوئی ہے ۔ اس کا اندازہ حال ہی میں منظر عام پر آنے والی جامعہ لائبریری کی سی سی ٹی وی فوٹیج کو دیکھ کر ہوتا ہے جس میں دہلی پولیس لائبریری کے اندر مطالعہ میں مصروف طلبا پر وحشیانہ انداز میں لاٹھیاں برساتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جامعہ کے طلبا اور طالبات کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے ہی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف انتہائی موثر انداز میں آواز بلند کی تھی اور وہ اس سیاہ قانون کے خلاف مزاحمت کی ایک دیوار بن گئے تھے۔ ان طلبا اور طالبات کے خلاف سنگھ پریوار کے لوگوں نے اتنا زہر پھیلایا کہ شرپسند عناصر نے ان پر گولیا برسانی شروع کردیں۔
یہاں بنیادی سوال یہ کہ کیا اب اس ملک میں حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرنا سب سے بڑا جرم بن گیا ہے ؟یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس سے ملک کا ہر مہذب شہری پریشان نظر آتا ہے۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے بھی زبان کھولی ہے ۔ انھوں نے جمہوریت میں مخالفت کی آوازوں کو سیفٹی والو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اختلاف رائے کووطن دشمنی یا جمہوریت مخالف قرار دینا آئینی اقدار کو بچانے اور جمہوریت کی توسیع کے عزم کے خلاف ہے۔انھوں نے احمدآباد میں ایک لیکچر کے دوران یہ بھی کہا کہ اختلاف رائے کو دبانے میں سرکاری مشینری کے استعمال کا خوف برقرارہے، جو قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی کرتا ہے۔انھوں نے کہا کہ جمہوریت میں منتخب حکومت اقدار پر اپنی اجارہ داری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ انھوں نے کہا کہ’’ سوال کرنے اور اختلاف کے وجود کو ختم کرنے سے سیاسی ، معاشی، تہذیبی اور سماجی ترقی کی بنیاد ہی ڈھے جاتی ہے۔‘‘ اس سے قبل مہاراشٹر کے بیڈ علاقہ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ پر روک لگانے کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حکم کو خارج کرتے ہوئے بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ نے کہا تھاکہ جو لوگ سی اے اے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ، انھیںمحض اس بنیاد پر غدار اور ملک دشمن قرار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اس قانون کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں ۔ عدالت عالیہ نے یہ بھی کہا کہ کسی احتجاج کو اس بنیاد پر کچلا نہیں جا سکتا کہ لوگ حکومت کے خلاف مظاہرہ کررہے ہیں۔عدالت نے نوکر شاہی کو یہ بات ذہن نشین کرنے کے لئے کہا کہ ہے جب لوگ کسی قانون کو اپنے حقوق پر حملہ سمجھ رہے ہیں تو ان کے حقوق کا تحفظ کرنا نوکر شاہی کی ذمہ داری ہے۔