شعبہ  اردو کے زیر اہتمام شمس الر حمن فاروقی کا توسیعی خطبہ


 


 


علی گڑھ، : علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سینٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی ،شعبہ ¿ اردو کے زیر اہتمام ”کلاسیکی غزل کے استعارے “ موضوع پررجحان ساز ناقدپروفیسر شمس الر حمن فاروقی کے توسیعی خطبہ کا انعقاد کانفرنس ہال میں کیا گیا ۔


                پروفیسر شمس الر حمن فاروقی نے کلاسیکی شاعری میں استعارہ کے نظام پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شاعر کے آہنگ کی انفرادی شناخت کے بغیر شعر سے صحیح معنوں میں لطف اندوز نہیں ہوا جا سکتا ہے۔شاعری میں لفظ و معنی اور اسلوب کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔لفظ و معنی کے اشتراک سے ہی شعر کا اسلوب تیار ہوتا ہے۔شعری اسلوب کو بہتر اور کمتر بنانے میں تشبیہ و استعارے کا اہم کردار ہوتا ہے۔انھوں نے کہا کہ مضمون سے عام طور پر وہ چیز مراد لی جاتی ہے جس کا ذکر شعر میں ہو اور شعر اس پر مبنی ہو۔جو مقولہ اس سوال کے جواب میں بولا جائے کہ شعر کس چیز کے بارے میں ہے وہ شعر کا مضمون ہوگا۔انھوں اس موقع پر خسرو، میر، غالب ،مصحفی وغیرہ کے اشعار بطور مثال پیش کئے اور کہا کہ مضمون و معنی میں ایک نازک اور پیچیدہ رشتہ ہوتا ہے۔قدیم عرب شعریات میں مضمون کی جگہ معنی کہتے تھے۔ مفروضہ یہ تھا کہ جو شعر میں کہا گیا ہے وہ اس کے معنی ہیں۔کچھ اسی طرح کا اصول ایرانی شعریات میں بھی جاری رہا۔


                 شمس الرحمن فاروقی نے کہا کہ مضمون کی بنیاد میں کہیں نہ کہیں کوئی استعارہ ضرور ہوتا ہے لیکن شعر چونکہ لفظ ہی سے بنتا ہے اس لئے کبھی کبھی کوئی غیر استعاراتی لفظ بھی مضمون کا کام کرجاتا ہے ۔شرط صرف اتنی ہے کہ وہ لفظ معنی میں کچھ اضافہ بھی کر دیتا ہو۔


                اس سے قبل خطبہ ¿ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے صدر شعبہ اردو پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے کہا کہ فاروقی صاحب کو سننے کا شرف ہمارے طلبا کو حاصل ہو رہا ہے یہ ان کے لئے بڑا موقع ہے۔انھوں نے کہا کہ شمس الر حمن فاروقی نے’ کئی چاند تھے سر آسماں ‘ جیسا ناول اور سوار جیسا افسانہ لکھا ہے تو شعر شور انگیز کے ساتھ شب خون جیسا اہم رسالہ بھی شائع کیا۔ان سے نوجوان نسل کوبہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔


                مہمان خصوصی معروف فکشن نگار سید محمد اشرف نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی اردو زبان و ادب کے بڑے عالم اور ہمہ جہت فنکار ہیں۔صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر قاضی جمال حسین نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی ہمارے ان علما میں سے ہیں جنھوں نے نسلوں کی تربیت کی ہے،انھوں نے کلاسیکیت سے جدیدیت تک اعلی درجے کی تحقیق پیش کی ہے۔ اس موقع پر پروفیسر آزر می دخت صفوی،پروفیسر قاضی افضال حسین،پروفیسرخورشید احمد، پروفیسر سید محمد امین، پروفیسر سید محمد ہاشم،پروفیسر قمرالہدی فریدی،پروفیسر احمد محفوظ،ڈاکٹر مشتاق احمد،مولانا اصفر اعجاز وغیرہ کے ساتھ شعبہ کے اساتذہ، ریسرچ اسکالر اور طلباو طالبات موجود رہے۔نظامت کے فرائض پروفیسر سید سراج اجملی نے بحسن و خوبی انجام دیے۔اظہار تشکر پروفیسر محمد علی جوہر نے کیا۔


ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی