اُردو یونیورسٹی کے اساتذہ کی اُردو اور انگریزی میں لکھنے کی دوہری ذمہ داری

 



قومی اُردو سائنس کانگریس کا اختتام۔ ڈاکٹر محمداسلم پرویز، پروفیسر ظفر احسن ، ڈاکٹر عابد معز کے خطاب
حیدرآباد،  مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے اساتذہ کی دوہری ذمہ داری ہے کہ وہ اردو میں لکھیں تاکہ طلبہ کو انہیں سمجھنے میں سہولت ہو اور انہیں اردو میں پڑھائیں اس کے ساتھ ساتھ اپنے تحقیقی کام کی اشاعت انگریزی میں بھی عمل میں لائیں تاکہ تحقیقی عمل چلتا رہے اور اس کا خود ان کو اور عوام کا بھی فائدہ ہو۔ اس سلسلہ میں یونیورسٹی سے جاری کردہ اعلامیہ میں اس بات کو لازمی کردیا گیا ہے کہ اساتذہ کے تقررات کے دوران اُنہیں امیدواروں کو قطعی فہرست میں شامل کیا جائے گا جنہوں نے کم از کم دسویں یا بارہویں سطح پر اردو میڈیم یا کم از کم ایک زبان کے طور پر اردو پڑھا ہو۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، وائس چانسلر نے کل شام قومی اردو سائنس کانگریس 2020 کے اختتامی اجلاس میں صدارتی خطاب کے دوران کیا۔
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے بتایا کہ اردو سائنس کانگریس کے مسلسل انعقاد کے باعث نہ صرف یہ کہ نئے لکھنے والے آنے لگے ہیں بلکہ مقالوں کا معیار بھی بڑھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگلے سال جب وہ یہاں نہیں ہوں گے تب بھی یہاں سائنس کانگریس ہوگی تو انہیں مسرت ہوگی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ہمیں نہ ہی ستائش پر بہت مسرور ہونا ہے اور نہ ہی تنقید پر رنجیدہ۔ مسلسل محنت اور ایمانداری سے اپنا کام کرتے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اردو کے لوگ پیچھے ہو رہے ہیں تو یہ ہم سبھی کی ذمہ داری ہے کہ انہیں آگے لانے کے لیے حتی المقدور کاوشیں کریں۔ اردو عوام میں صحت، منطق جیسے اُمور پر شعور بہت کم ہے۔ جبکہ ان میں بہت زیادہ جذباتیت پائی جاتی ہے۔ ان حالات کو بہتر بنانے کی خاطر انہوں نے ماہنامہ ”سائنس“ کا اجرا عمل میں لایا۔ پہلے کے مقابلے میں آج حالات پھر بھی بہتر ہیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے مزید بتایا کہ فرانس کے کتابی میلہ 2020 میں جہاں ہندوستان مہمان ملک ہے انہیں وزارت فروغ انسانی وسائل کی جانب سے مندوبین کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
پروفیسر ظفر احسن، وزیٹنگ پروفیسر ریاضی نے کہا کہ اردو میں مضامین اور مقالے لکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ طلبہ کو سمجھانے میں بہت معاون ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی پہنچ کو بڑھانے کے لیے انہیں انگریزی میں ترجمہ کرنا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ ایک جاپانی اسکالر نے ایک مقالہ جاپانی زبان میں 1930 میں لکھا تھا۔ ایک دوسرے سائنسداں کو اس کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے 1960ءمیں اس مقالے کا ترجمہ کروایا۔ جس پر پتہ چلا کہ یہ تحقیق نوبل انعام کی حقدار ہوسکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اردو میں مقالے ضرور لکھے جانے چاہئیں تاکہ خصوصی طور پر طلبہ کو پڑھائے جاسکیں اور یہ کام اردو والوں کے لیے آسان ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر عابد معز، کنوینر کانگریس و کنسلٹنٹ اردو مرکز برائے فروغِ علوم نے مختلف سیشنس کی روداد سنائی اور کہا کہ کانگریس میں سائنس کی دنیا کے شہرہ آفاق شخصیات شرکت کر رہے ہیں۔ افتتاحی اجلاس میں ڈاکٹر نکول پاراشر، ڈائرکٹر وگیان پرسار اور ڈاکٹر شیام سندر ماہر امراض چشم نے شرکت کی۔ ڈاکٹر عبدالمعز شمس، پروفیسر ظفر احسن، پروفیسر زاہد حسین خان، ڈاکٹر عرفانہ بیگم، ڈاکٹر عزیز عُرسی، ڈاکٹر عزیز الرحمن خان، سیدہ فاطمہ النسائ، عبدالودود انصاری، ڈاکٹر خورشید اقبال، ڈاکٹر ایم اے ودود، مومن عبدالملک سلیمان، ڈاکٹر رفیع الدین ناصر، پروفیسر جمال نصرت، مومن بلال احمد علی، محترمہ فاطمہ زہرہ اور مانو کے اساتذہ و دیگر شرکا دیگر اجلاس میں شریک رہے۔ انہوں نے سبھی کا شکریہ بھی ادا کیا۔
اس موقع پر پروفیسر ظفر احسن کی جانب سے بہترین مقالے کے لیے بشارت حسین کو اور بہترین پیشکش کے لیے ساریہ نعمان کو 5000 فی کس نقد انعامات دیئے گئے۔ پروفیسر محمد ظفر الدین، پروفیسر فاروق بخشی، ڈاکٹر عبدالمعز شمس، ڈاکٹر عرفانہ بیگم، جناب انیس اعظمی، زہرہ فاطمہ و دیگر نے بھی اظہار خیال کیا۔


جدید تر اس سے پرانی