یوم خواتین کے موقع پر جامعہ میں ”حقوق نسواں کے علم کی تخلیق اور پھیلاؤ“ کے موضوع پر لیکچر

 

 

یوم خواتین کے موقع پر جامعہ میں ”حقوق

نسواں کے علم کی تخلیق اور پھیلاؤ“ کے موضوع پر لیکچ

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سروجنی نائیڈو سنٹر فار ویمن اسٹڈیز (ایس این سی ڈبلیو ایس) کی جانب سے عالمی یوم خواتین کی مناسبت سے3 مارچ 2020 کو  چھٹا سالانہ میموریل لیکچر کا انعقاد کیا گیا۔  فیمنسٹ مصنفہ اور سماجی کارکن اروشی بٹالیا نے کلیدی خطبہ پیش کیا، جس میں انھوں نے ’حقوق نسواں کے علم کی تخلیق اور پھیلاؤ‘ پر اظہار خیال کی۔ اس پروگرام کی صدارت پروفیسر سیمی ملہوترا نے کی، پروگرام میں بڑی تعداد میں جامعہ اور جامعہ سے باہر کے اہل علم و دانش نے شرکت کی۔

سینٹر کی ڈائریکٹر پروفیسر صبیحہ حسین نے شرکاء کا خیرمقدم کیا اور سینٹر کی حصولیابیوں پر روشنی ڈالی۔

محترمہ بٹالیا نے حقوق نسواں کے علم کی تاریخ، درپیش چیلنجز، متبادل علمی مقامات، شناخت اور ان کی نمائندگی پر  تبادلہ خیال  کیا۔ انہوں نے  تاریخ کے دیچوں سے  ہندوستانی حقوق نسواں کے علم کی تاریخ اور ان کی خدمات پر تفصیل سے بات چیت کی۔ انہوں نے مکتا بائی سالوے، ساویتری بائی پھولے اور شرمیلا راگے کے کاموں کا حوالہ دیا، جنھوں نے علم کی صورتحال اور مردوں کے تسلط پر سوال اٹھائے۔ بٹالیا نے کہا، ”جب کالی کو تخلیق کیا گیا ہم نے علم کی ملکیت پر سوال اٹھائے۔

محترمہ بٹالیہ نے لیکچر کے آخر میں کہا، جب ہم ایک متبادل تھے، ہم مرکزی دھارے میں شامل ہونے کے لئے جدوجہد کر رہے تھے، اور اب، ہم متبادل میں شامل ہونے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔انہوں نے موجودہ منظرنامے میں خواتین کی جدوجہد اور ان کے احتجاج  کے علاوہ  مزاحمت کے حق کے بارے میں بھی گفتگو کی۔ زبان کے حوالے سے اپنی گفتگو میں انہوں نے کہا، علاقائی ادب کا انگریزی میں ترجمہ کرنا ضروری ہے، لیکن انگریزی ادب کا علاقائی زبانوں میں ترجمہ کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔

پروفیسر سیمی ملہوترا نے سوال جواب سیشن کی صدارت کی، طلباء نے محترمہ بٹالیا سے سوالات بھی کیے جن کا انھوں نے تشفی بخش جواب دیے۔ ڈاکٹر ثریا تبسم کے کلمات تشکر سے پروگرام اختتام کو پہنچا۔

 

ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی