کرونا اور ہماری ذمہ داری


*کورونا وائرس کے معاشرے پر اثرات اور ہماری ذمہ داری*


محمد خالد
اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس کی زد میں ہے، عالمی طبی ماہرین اور ادارے رات و دن لوگوں کو اس سے محفوظ رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں. حکومتوں کے ذریعہ بھی اپنے اپنے شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی جا رہی ہیں. عالمی مذاہب اپنے عقیدے کے مطابق اپنے پالن ہار سے معافی مانگنے اور اس کو راضی کرنے میں لگے ہوئے ہیں. اس کے ساتھ ہی کورونا وائرس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ پوری دنیا کے انسان اس وقت صرف انسان ہیں، نہ ملکوں کی چہار دیواری ہے اور نہ ہی کسی مذہب و نظریہ کا ٹکراؤ. اللہ کرے کہ انسان ہمیشہ اسی طرح ایک دوسرے کا ہمدرد رہے اور اس کو اللہ کے خالق ہونے اور خود کو مخلوق ہونے کا احساس رہے تاکہ ایک اچھا انسانی معاشرہ وجود پائے.
ملت اسلامیہ ہند کو اس وقت یہ موقع حاصل ہے کہ وہ لوگوں کی مسیحا بن کر سامنے آئے، خیر امت کا فریضہ انجام دے اور اپنے حُسن سلوک کے ذریعہ اس عارضی زندگی کا اصل کام اللہ کے دین کو اللہ کی مخلوق تک پہنچانے کا حق ادا کرے. 
اس افرا تفری اور مصیبت کی گھڑی میں حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی تنظیمیں عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں. بڑے پیمانے پر کھانے پینے کے سامان کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے. اگر عوامی فلاح و بہبود میں مصروف شخصیات اور تنظیموں میں آپسی رابطہ قائم ہو جائے تو بہت اچھا ہوگا ورنہ ایک ہی علاقے میں کئی کئی تنظیمیں راشن تقسیم کر رہی ہوں گی اور دیگر علاقوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں ہو پائے گی. 
دوسری بات یہ ہے کہ راشن فراہمی سے معاشرے کا وہ طبقہ ہی مستفید ہو سکے گا جو تنظیموں تک پہنچنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا اور معاشی طور پر کمزور سفید پوش حضرات کے ساتھ تعاون مشکل سے ہی ہو پائے گا. ایسے سفید پوش افراد کو تعاون کرنے کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں مگر میرے خیال سے ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ مخیر حضرات اپنے اپنے محلوں اور کالونیوں کے کرانہ دکانداروں سے رابطہ کریں اور ان سے کہیں کہ جو لوگ ان کی دکان سے مستقل سامان خریدتے ہیں، ان میں سے جن لوگوں کو وہ لوگ آج کل کے حالات میں ضرورت مند سمجھیں انہیں سامان فراہم کر دیں اور ان کے سامان کی قیمت رابطہ کرنے والے شخص سے حاصل کر لیں. ایک شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ضرورت مند شخص سامان کی کچھ قیمت دے سکتا ہو تو اس سے اتنی رقم حاصل کر لیں اور بقیہ رقم رابطہ کار سے لے لیں تاکہ وقتی طور پر ضرورت مند اُس شخص کی عزت نفس بھی محفوظ رہے.
برادران وطن کی ضروریات کو پورا کرنے کی بھی کوشش کی جائے. 
راشن فراہمی کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے دیگر معاملات سے بھی باخبر رہنے کی کوشش کی جائے کہ کسی کے گھر کوئی بیمار ہو یا شہر میں ہی ایک مقام سے دوسرے مقام پر جانے کی ضرورت ہو تو اس کی اس ضرورت کو بھی پورا کرنے کی کوشش کی جانا چاہئے. 
آئیے اللہ رب العزت سے اپنی خطاؤں اور گناہوں سے توبہ کے ساتھ ہی اس مصیبت سے جلد از جلد نجات حاصل کرنے کی دعا کی جائے. 
میرا احساس ہے کہ اس وقت خالقِ کائنات، رحمان و رحیم اللہ رب العزت ہم سے سخت ناراض ہے تبھی اس نے ہم پر اس وبا کو نافذ کرنے کے ساتھ ہی ہمارے لئے اپنے گھر (مسجد) کے دروازے بھی بند کر دئے ہیں، ہم کو اپنے گھر میں سجدہ ریز ہونے سے محروم کر دیا ہے. اللہ ہم سب کو معاف کرے، اپنی رحمتوں سے نوازے اور بقیہ زندگی کو اپنی ہدایت اور نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق گزارنے کی توفیق اور مواقع عطا فرمائے آمین. 


جدید تر اس سے پرانی