کرونا وائرس، مسجد جائں یہ نہیں پڑھیں یہ رپورٹ


اس صورتحال کے پیش نظر مساجد کے متعلق مفتی حذیفہ ،مولانا محمود دریابادی اور حافظ اقبال چونا والا وغیرہم نے یہ دریافت کیا کہ ان حالات میں   شرعی نقطہ نظر سے کیا  لائحہ عمل اختیار کیا جانا  چاہئے ،میں نے حتی المقدور غور وخوض اور چند مقامی ذمے دار مفتیان کرام(جن سے رابطہ ممکن ہوسکا ان)سے صلاح ومشورے کے بعد جو لکھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جیسا طبی ماہرین بتاتے ہیں اگر واقعی یہ اہساہی متعدی مرض ہے تو جب تک اس پر قابو نہیں ہوتا اس وقت تک کے لئے مساجد کے بجائے لوگ گھروں میں نمازیں پڑھتے رہیں مساجد میں وہاں رہنے والا عملہ پوری احتیاطی تدابیر کے ساتھ اذان دے کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لیا کرے یا پھر کچھ تندرست لوگ اعتکاف کرلیں اور اذان ونماز کا اہتمام کرتے رہیں بچے بوڑھے اور بیمار لوگ قطعا مسجد نہ جائیں  اور  تمام لوگ رجوع الی اللہ اور توبہ استغفارکا معمول بھی رکھیں 
ان حضرات نے یہ تحریر سوشل میڈیا پر وائرل کردی جس سے ملک کے اکثر علاقوں تک پہونچ گئی اور  بیشتر علمائے کرام کا رد عمل بھی مثبت ہی رہا 
اس سلسلے  میں مفتی سعید الرحمن صاحب نے  بعض اکابر کے متعلق یہ بتایا کہ حضرت چاہتے ہیں  اسے مدلل کردیاجائے
بعد میں میری بھی گفتگو ہوئی لہذا امتثالا للامر جس حد تک ممکن ہوسکا میں نے  پوری کوشش کی ہے کہ حکم کی تعمیل ہوسکے 
اس سلسلے میں چند امور خاص طور پر توجہ طلب ہیں 1/رضاء بالقضا2/توکل علی اللہ 3/, تقدیر پر ایمان کے ساتھ احتیاطی تدابیر کی حیثیت اور کیا اسباب کا اختیار کرنا توکل کے خلاف ہے اسکے بعد سوال کا اصل محور یعنی 4/مساجد کی ابادی اور نماز باجماعت کی اہمیت 5/ اور یہ کہ کیا ان حالات میں وقتی طور پر نماز باجماعت کو موقوف کیا جاسکتا ہے 
جہاں تک تقدیر اور رضا بالقضاء کا معاملہ یہ ایمانیات میں سے ہے لیکن اسکے باوجود تدبیر کا اختیار کرنا ایمان کے منافی نہیں جبکہ  تدبیر کے اختیار کرنے کا حکم نصوص میں بھی موجود ہے اس لئے اسے توکل کے خلاف بھی نہیں کہا جاسکتا مثلا مسلم شریف میں حضرت جابر عبد اللہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا برتن کو ڈھانک کر رکھو  اور مشکیزوں کے منہ بند کرلیا کرو کیونکہ سال میں ایک رات ایسی بھی آتی ہے جس میں وبا اترتی ہے اور کھلے برتن اور مشکیزے میں داخل ہوجاتی ہے (مسلم شریف)علامہ نووی اسکی شرح میں لکھتے ہیں کہ علماء کے مطابق اس حکم کے متعدد فائدے ہیں (1)شیطان سے حفاظت (2)اس وباء سے حفاظت جو اس رات میں اترتی ہے (3)نجاست اور گندگی سے بچاؤ (4)حشرات الارض سے حفاظت جو کھلا برتن دیکھ کر اندر داخل ہونے پر مضرت کا سبب بن سکتے ہیں اھ حضرت جابر ہی سے دوسری ایک روایت بخاری شریف میں بھی منقول ہے جس میں مندرجہ بالا دو ہدایتوں کے علاوہ سوتے وقت چراغ کو بجھانے اور دروازوں کو بند کرلینے کا حکم بھی ہے اس میں غطوا الاناء کے بجائے خمروا الطعام والشراب کے الفاظ وارد ہیں 
المفہم شرح صحیح مسلم میں قرطبی نے لکھا ہے کہ  یہ احکام دنیوی مصالح سے تعکق رکھتے ہیں اور اصولیین کے مطابق وجوب وندب کے بجائے یہ احکام کی ایک الگ قسم ہے 
یہ اور اس طرح کی دوسری  روایات سے بخوبی واضح ہے کہ تدبیر اختیار کرنے کا حکم خود شارع علیہ السلام نے دیا اس لئے نہ تو تدبیر کا اختیار کرنا ایمان بالقدر کے خلاف ہے نہ ہی توکل علی اللہ کے ،، شریعت کے احکام میں تقدیر اور تدبیر کے توازن کی مثالیں بھی موجود ہیں جیسے باہر سے وباء زدہ  علاقوں میں نہ جانے اور اگر اس جگہ موجود تو وہاں سے نہ بھاگنے کی ہدایات تدبیر تقدیر کے خلاف نہیں ہے اسکی بہترین مثال وہ  حدیث ہے جس میں یہ کہاگیا ہے کہ مجذوم سے اس طرح دور رہو جس طرح شیر سے دور بھاگتے ہو ان روایات سے مطلق تدبیر کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیر کی حیثیت بھی واضح ہوجاتی ہے علماء نے احتیاطی تدابیر کو تقدیر سے فرار کے بجائے ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف جانے سے تعبیر کیا ہے  پھر ہمیں تقدیر کا قطعی علم تو ہے نہیں لہذا یہ کہاجاسکتا ہے کہ تدبیر کا اختیار کرنا تقدیر ہی کا ایک حصہ ہے رہا مسئلہ جماعت کے موقوف کردینے کا تو عہد رسالت میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں جب کسی وجہ سے جماعت میں شمولیت کے بجائے اپنے طور پر انفرادی نماز کی ہدایت دی گئی چنانچہ مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ہم لوگ ایک سفر میں حضور  اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو بارش ہوگئی آپ نے ارشاد فرمایا تم میں سے جو چاہے وہ اپنی جگہ پر ہی نماز پڑھ لے یہ روایت صحیح مسلم کے علاوہ سنن ابو داؤد اور ترمذی شریف میں بھی منقول ہے علامہ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اسی روایت کی روشنی میں آندھی اور سخت سردی کے علاوہ تیز بارش کو بھی ترک جماعت کے اعذار میں داخل مانا ہے فقہاء نے دشمن اور درندوں سے سخت خطرات کو بھی  ترک جماعت کے لئے عذر قرار دیا ہے اسی طرح گندہ دہنی کے مریض اور مجذوم وغیرہ کو صراحت کے مسجد آنے سے روکا گیا ہے 
موجوہ صورت حال کے عین مطابق یہ مسئلہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص مقروض ہے  اور اسکے پاس فی الوقت ادائیگی کی کوئی صورت نہیں لیکن اس بات کا قوی  اندیشہ ہے کہ مسجد گیا تو قرضخواہ سرعام بے عزتی کرسکتا ہے اس صورت میں بھی فقہاء نے اسے جماعت کے لئے مسجد نہ جانے کی رخصت دی ہے  لہذا جب تیز بارش آندھی اور سخت سردی نیز دشمن اور موذی جانور سے خوف کو ترک جماعت کے لئے عذر مانا گیا اور بے عزتی کے اندیشے کی صورت میں مقروض کو ترک جماعت کی اجازت دی گئی ہے نیز جن افراد  سے مصلیوں کو ایذاء پہونچ سکتی ہے انکے لئے مسجد انے سے ممانعت منقول ہے اسی طرح بدبودار اشیاء کھاکر علی الفور مسجد آنے کی ممانعت خود حدیث شریف میں موجود ہے تو موجودہ صورت حال ان سے کئی زیادہ مضر اور تشویشناک ہے پھر جس طرح انتظامیہ سختی کررہی ہے اسکے پیش نظر بھی شریعت کی منشاء یہی معلوم ہوتی ہے کہ سر دست عمومی جماعت کو موقوف رکھ کر لوگ گھروں میں ہی نمازیں اداکریں نیز  جماعت گھر میں بھی کی جاسکتی ہے جو اندیشے ہیں وہ محض وہم کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ ایسے حقائق ہیں جنھوں پوری دنیا کو مضطرب کر رکھا ہے ان حالات میں انسانی جانوں کا تحفظ زیادہ اہم ہے  نمازیں تو ہم گھروں میں رہتے ہوئے بھی ادا کرتے رہینگے انتظامیہ کی سختی  اسکے علاوہ ہے  اور اب تو کرفیو بھی نافذ ہورہاہے حالات جلد قابو میں نہ آئے تو ملک گیر سطح پر بھی کرفیو کا نفاذ ہوسکتا ہے ایسے شریعت کی منشاء کو نہ سمجھنا اور مسجد کی جماعت پر اصرار کو  انسانوں کو ہلاکت میں ڈالنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا جاسکتا البتہ اسکی کوشش کی جائے کہ جو مسجد کے مقیم ہیں وہ اذان دیکر اپنی جماعت کرلیا کریں یا پھر کچھ لوگ اعتکاف کرلیں اور تمام احتیاطی تدابیر اور ہدایات کو اپناتے ہوئے اذان اور نماز کا اہتمام کرتے رہیں تاکہ مساجد بالکل معطل ہوکر نہ رہ جائیں امید ہے انتظامیہ اس حد تک اجازت بھی دیدی گی تا ہم کہیں  کرفیوکے وجہ سے اجازت نہ مل سکے تو اس پر اصرار بھی  نہ کیا جائے 
نوٹ حالات کی وجہ کتابوں لی۔طرف مراجعت ممکن نہ ہوسکی اس لئے مذکورہ نظائر کی  اصل عبارات نقل نہیں کرسکا تاہم یہ مسائل بدیہیات میں سے ہیں اس لئے چنداں ضرورت بھی نہیں تھی امید پے یہ مختصر تحریر امتثال امر کے لئے کافی ہوگی واللہ اعلم وعلمہ اتم
عزیز الرحمان عفی عنہ


بہ شکریہ واٹس اپ


جدید تر اس سے پرانی