جامعہ میں ٹیچرس اور وائس چانسلر میں ٹھنی؟


 


 یونیورسٹی اور وائس چانسلر کے خلاف  غلط بیانی پر جامعہ ٹیچرس ایسوسی ایشن کی  اظہار ناراضگی اور مذمت

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اساتذہ پر مشتمل باڈی نے جامعہ کی پہلی خاتون وائس چانسلر کو نشانہ بنانے اور ان کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہویے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ایسو سی ایشن کے بقول پروفیسر نجمہ اختر کچھ مفاد پرست افراد کے نشانے پر ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر اس قسم کا رویہ اپنا رہے ہیں۔
پچھلے سال جامعہ وی سی، یونیورسٹی وزٹر اور ہندوستان کے معزز صدر کی تلاش کمیٹی کے فیصلے کو جس میں جامعہ کی سو سالہ تاریخ میں پہلی خاتون وائس چانسلر کا انتخاب کیا گیا تھا،  ملک کے ہر گوشے سے استقبال کیا گیا۔ اس عہدے کو سنبھالنے کے فورا بعد ہی، وہ بنیادی طور پر دو وجوہات کی بناء پر مٹھی بھر لوگوں کا سب سے بڑا ہدف رہیں، اولین، پروفیسر اختر نے داخلے اور بھرتی کے عمل کے ضابطے کو سخت کیا جس کو میکانزم کی شفافیت کی وجہ سے زبردست پذیرائی ملی۔ ثانیا، کچھ منتخب افراد جو وی سی آفس پر قبضہ جمایے ناجائز فوائد حاصل کرتے ہیں اس پر مکمل طور پر قدغن لگا دیا گیا۔
 یہی وہ وجوہات ہیں کہ وہ ایسے افراد کی آنکھوں کا شہتیر بن گئیں۔ یہ لوگ مستقل یونیورسٹی میں طلباء کے مخصوص گروہ کے ذریعہ بدامنی کو بڑھاوا دے رہے ہیں، انھیں وائس چانسلر  کے ذریعے طلبہ کے مسائل پر کھل کر بات چیت کرنے اور ان کے مسائل کے حل کی بات کرنے اور صنفی بنیادوں پر بھید بھاو نا کرنے کا عمل بھی پسند نہیں ہے۔ اس طرح کے لوگ پردے کے پیچھے رہتے ہویے، لگاتار اپنے قریبی لنک سے تعلق بنائے ہویے ہیں اور اس بارے میں حالیہ خبروں سے بھی اس حقیقت سامنے آئی ہے۔مجموعی طور پر یونیورسٹی ہندوستان اور بیرون ملک تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی و سیاسی حالات کی وجہ سے ان کا ہدف بنا ہوا ہے۔ ایسے موقع پرست لوگ تیزی سے ترقی کرتی یونیورسٹی کو پٹڑی سے اتارنے کے ارادے سے جامعہ پر حملہ کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہے ہیں۔
پروفیسر نجمہ اختر نے ہمیشہ طلباء کے حقیقی مسائل کی حمایت کی ہے، خواہ وہ تعلیمی ہو یا قومی، ا نھوں نے یونیورسٹی میں ترقی سے متعلق اور دیگر طویل التواء والے معاملات کو بھی کافی تیزی سے حل تلاش کیا ہے۔ قومی اور بین الاقوامی خدشات پر فوری کاروائی کا مطالبہ کرنے والے معاملات کو جنم دینے کے باوجود، پروفیسر اختر کیمپس میں تعلیمی ماحول برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہیں۔ یہ اپنے آپ میں حیرت کی بات ہے کہ تمام تر افرا تفری کے باوجود ان کی کارکردگی میں جامعہ کا اکیڈمک سیشن کیلنڈر کے مطابق جاری ہے۔ انھوں نے متعدد مستحق اساتذہ کو مواقع فراہم کیے کہ وہ متعدد عہدوں پر انسٹی ٹیوٹ میں خدمات انجام د یں، ان میں خواتین کی بھی ایک معتدبہ تعداد ہے۔
جامعہ ٹیچررس ایسوسی ایشن نے اعلان کیا ہے کہ وہ وائس چانسلر کو ان کے اقدامات اور فیصلوں کے لئے جس طرح اب تک مکمل تعاون دیتی رہی ہے اور جب تک وہ یونیورسٹی کے آرڈیننس کے مطابق شفافیت، انصاف اور اساتذہ سمیت طلباء اور عملے کے حق میں کام کرتی رہیں گی تب تک انھیں  ان کا تعاون ملتا رہے گا۔ جے ٹی اے پرامید ہے کہ وہ اسٹاف اور طلبہ کی زیادہ سے زیادہ رہائش، تحقیقی سہولیات اور یونیورسٹی کی مجموعی بہبود کے لئے فنڈز لائے گی۔ جامعہ کے اساتذہ یونیورسٹی کو ٹریک پر رکھنے اور قوم کی ترقی میں بہتری لانے کے لئے ہر وہ اقدامات کریں گے جس کے لئے تقریبا ایک صدی قبل اس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
جے ٹی اے خبر رساں اداروں اور میڈیا کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہویے ان تمام افراد کی ستائش کرتی ہے جنہوں نے منصفانہ اور حقیقی رپورٹنگ کے ذریعے مشکل وقت میں جامعہ کی مدد کی۔ تاہم، جامعہ کے اسٹیک ہولڈرز کے خلاف بلاجواز اور ناجائز رویہ اختیار کرنے کے دوران، چند نیوز ایجنسیاں تعصب کے ساتھ بہت مختلف خبریں دیتی رہیں، چاہے وہ وائس چانسلر کی بابت ہو، اساتذہ یا پھر طلباء کی یہ اخلاقیات کے منافی ہے۔ میڈیا کو اپنی بے باکانہ رپورٹنگ کے نام پر جامعہ کو بدنام کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ جے ٹی اے ذرائع ابلاغ سے گذارش کناں ہے کہ وہ ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے ذریعہ پیشہ ورانہ اور صحت مندانہ صحافت کو فروغ دیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی