تبلیغی جماعت کا قصورکیا ہے؟


تبلیغی جماعت کا قصورکیا ہے؟
معصوم مرادآبادی
ترقی یافتہ ملکوں میں زبردست تباہی مچانے اور ہزاروں انسانوں کی جان لینے والاانتہائی خطرناک کورونا وائرس ہندوستان پہنچ کرفرقہ واریت اور مسلم دشمنی کے مہلک وائرس میں تبدیل ہوگیا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں کورونا سے لڑنے اور نجات پانے کی تمام تدبیریں اب محض تبلیغی جماعت کے ارد گرد سمٹ کر رہ گئی ہیں۔میڈیا نے تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کررکھا ہے۔ انتہائی فرقہ پرست اور مسلم دشمن میڈیا کے دباؤ میں تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کے خلاف جو قدم اٹھائے جارہے ہیں، انھیں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ وہی پوری دنیا میں اس موذی وائرس کو پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی مشینری اس انتظار میں بیٹھی تھی کہ وہ موقع ملتے ہی اس جماعت کا کام تمام کردے۔ حالانکہ یہ ایک ایسی بے ضرر جماعت ہے جس کا سیا ست تو کجا خود دنیاوی معاملات سے بھی کوئی لینا دینانہیں ہے۔یہ لوگ خداکی بندگی اور اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے علاوہ کسی بات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔’نام کے مسلمانوں کو کام کا مسلمان‘بنانے کی یہ تحریک اسی بستی حضرت نظام الدین کی بنگلے والی مسجد سے1932 میں کاندھلہ کے رہنے والے مولانا محمد الیاس نے شروع کی تھی۔وقت گذرنے کے ساتھ کام آگے بڑھتا رہا اوردیکھتے ہی دیکھتے ایک چھوٹی سی مسجد عالمی تبلیغی مرکز میں تبدیل ہوگئی اور اس کا دائرہ دنیا کے 150سے زیادہ ملکوں میں پھیل گیا۔ صرف ہندوستا ن میں ہی اس کے کارکنان کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔حالیہ تنازعہ کے بعد پوری دنیا تبلیغی جماعت کی طرف متوجہ ہوئی ہے اور خود ہندوستان میں رہنے والے غیر مسلموں کو اس کے بارے میں جاننے کی خواہش ہے۔
 تبلیغی مرکز میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے پھنسے ہوئے لوگوں کا معاملہ منظر عام پر آنے اور اس پر میڈیا کے واویلا مچانے کے بعدپورے ملک میں تبلیغی جماعت کے لوگوں پر شکنجہ کسا جارہا ہے اور دوردراز علاقوں میں جماعت کے لوگوں کے خلاف ایسی ہی چھاپہ مار کارروائیاں انجام دی جارہی ہیں جیسی کہ کسی خطرناک گروہ کے خلاف انجام دی جاتی ہیں۔تبلیغی جماعت کے لوگوں کو اپنے گھروں میں پناہ دینے اور انھیں سہولتیں فراہم کرنے والوں کے خلاف با ضابطہ مقدمات قایم کئے جارہے ہیں اور انھیں مجرموں کی طرح گرفتار کرکے جیل بھیجا جارہا ہے۔حکومت کی مشینری اور پولیس سے یہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہے کہ ان لوگوں کا قصور کیا ہے اور انھیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ ان کے خلاف لاپروائی برتنے کا کیس بنتا ہے لیکن پولیس اور سرکاری مشینری ان لوگوں کے ساتھ خطرناک مجرموں جیسا سلوک کررہی ہے۔غازی آباد کے ایک اسپتال میں قرنطینہ میں موجود بعض تبلیغی کارکنان کی نرسوں کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کی خبریں آنے کے بعد وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے قومی سلامتی ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دہلی میں واقع تبلیغی مرکز کے ذمہ داروں سے کورونا سے پیداشدہ صورتحال کی  نزاکت کو سمجھنے میں چوک ہوئی اور وہ اس وبا کے نتیجے میں عالمی پیمانے پر ہورہی تباہ کاریوں کا اندازہ نہیں لگا پائے، جس کا خمیازہ انھیں اور ان کے ساتھیوں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب ملک میں اسکول کالج بند ہونے شروع ہوئے تھے، تبھی تبلیغی مرکز کی سرگرمیوں کو محدود کردیا جاتا۔لیکن نہ جانے کیوں تبلیغی جماعت کے ذمہ داران اتنی بڑی آزمائش میں مبتلا ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ حالانکہ تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں نے وہاں پھنسے ہوئے سینکڑوں لوگوں کو نکالنے کی تدبیریں کیں اور حکومت کے کارندوں سے مسلسل رابطے بھی قایم کئے،لیکن یہ تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں اور پھر یوں ہوا کہ جب لاک ڈاؤن کے بعد وہاں پھنسے ہوئے دوہزار سے زیادہ افرادمیں سے کچھ لوگ کورونا وائرس کے مریض پائے گئے تو میڈیا نے آسمان سر پر اٹھالیا اور انھیں ’کورونا جہادی‘ اور’آتنک وادی‘ تک کہا جانے لگا۔ تبلیغی جماعت اور اس کے لوگوں کا انتہائی شرمناک میڈیا ٹرائل وراینکروں کے منہ سے نکلتے ہوئے جھاگ دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اب اس ملک کا میڈیا بدترین مسلم دشمنی پر آمادہ ہے اور وہ مسلمانوں کو ہر صورت سے بدنام کرنا چاہتا ہے۔اس خوفناک میڈیا ٹرائل کا ہی نتیجہ ہے کہ حکومت نے اس جماعت کے خلاف انتہائی سخت قدم اٹھائے ہیں۔ ایک طرف جہاں امیرجماعت مولاناسعد کاندھلوی اور ان کے آٹھ ساتھیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے تو وہیں ان 960غیرملکیوں کے ویزے بھی ردکردئیے گئے ہیں جو دنیا کے مختلف ملکوں سے تبلیغ کے سلسلے میں ہندوستان آئے ہوئے تھے۔ان غیرملکیوں میں سے بیشتر لوگوں کے پاسپورٹ بھی ضبط کرلئے گئے ہیں۔مرکز کا انتظام وانصرام دیکھنے والے کچھ ذمہ داروں کو پولیس نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور کچھ اہم لوگوں کی تلاش جاری ہے۔اس کام کے لئے اسپیشل اسٹاف اور اسپیشل سیل سمیت پولیس کی کئی ٹیمیں سرگرم ہیں۔ ان کے بینک اکاؤنٹ کو کھنگال کر اس بات کا پتہ لگایا جائے گا کہ ان کے پاس فنڈ کہاں سے آتا ہے۔ کرایم برانچ نے مولانا سعد کاندھلوی سے جن 26سوالوں کے جواب طلب کئے گئے ہیں ان میں جماعت کا رجسٹریشن، منیجنگ کمیٹی کے ارکان کی تفصیل، اکاؤنٹ نمبر، پین نمبر اور انکم ٹیکس کی ریٹرن جیسے ٹیڑھے سوال پوچھے گئے ہیں۔ سبھی کومعلوم ہے کہ جماعت کا کوئی رجسٹریشن نہیں ہے اور نہ ہی اس کا اپنا کوئی بینک اکاؤنٹ ہے اور نہ ہی وہاں انکم ٹیکس ریٹرن بھرنے کا کوئی طریقہ ہے۔
وزارت صحت کے مطابق تبلیغی مرکز سے جن 2361لوگوں کو نکالا گیا ہے، ان میں 400لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہیں۔ ملک بھر میں ایسے 9000لوگوں کی شناخت کی گئی ہے جو ان کے رابطے میں آئے۔ ان تمام لوگوں کو قرنطینہ میں بھیجا گیا ہے۔ راجدھانی دہلی میں کورونا کے جو 141کیس درج ہوئے ہیں،ان میں اکیلے 129وہ لوگ ہیں جنھیں سرکاری اصطلاح میں نظام الدین مرکز سے’آزاد‘ کرایا گیا ہے۔ان میں سے ایک شخص کی موت ہوچکی ہے۔پورے ملک میں اب تک کورونا کے جن 2000سے زیادہ معاملات کی نشاندہی کی گئی ہے، ان میں 53  لوگوں کی موت واقع ہوچکی ہے۔ ان میں بھی پندرہ لوگوں کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں کورونا وائرس کے خلاف جنگ کا محور تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کوبنالیا گیاہے۔ ایک طرف جہاں ملک کی سرکردہ مسلم تنظیموں نے تبلیغی جماعت اور اس کے امیر کے خلاف کارروائی کی مخالفت کی ہے، وہیں کچھ بیمار ذہن لوگ مسلکی اور نظریاتی اختلاف کی آڑ میں تبلیغی جماعت پر پابندی لگانے کا شوشہ بھی چھوڑ رہے ہیں۔ یہ وہ ناعاقبت اندیش لوگ ہیں جنھیں فرقہ پرست اور فسطائی عناصر کے خطرناک منصوبوں کا علم نہیں ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تبلیغی جماعت کے بہانے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی یہ مہم حکومت کی ان ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے شروع کی گئی جو اس وبا سے نپٹنے کے معاملے میں سامنے آئی ہے۔ انتہائی عجلت اور ہڑبڑاہٹ میں نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن سے سب سے بڑا نقصان ان کروڑوں غریب اور لاچار لوگوں کو پہنچا ہے جو روز کنواں کھود کر اس میں سے زندہ رہنے کے اسباب پیدا کرتے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت سڑکوں پر ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ کانگریس صدرسونیا گاندھی نے اس معاملے میں حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔لاکھوں یومیہ مزدور بے سرو سامانی کے عالم میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں اور اس وقت ان کی زندگی جہنم بنی ہوئی ہے۔ حکومت کے پاس اس وبا سے نپٹنے کے لئے تیاریاں بہت محدود ہیں۔ سرکار کی ناکامیوں سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے اس وبا کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیاہے۔ لیکن یہ بات سبھی کو یاد رکھی جانی چاہیے کہ کسی بیماری کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مسلک۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک انتہائی سنگین بحران سے گذر رہا ہے اور حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ لوگ بلاتفریق مذہب وملت اس وبا کا مقابلہ کریں، ایسے میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا سب سے بڑا پاپ ہے اور جو لوگ بھی اس کے مرتکب ہورہے ہیں، انسانیت انھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔


بہ شکریہ‌واٹس اپ


ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی