رمضان کے لئے دعا


*اللہ رب العالمین ہم سب پر رمضان المبارک کے فضائل کی بارش کرے*


محمد خالد


عالم انسانی پر اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے موسم خزاں طاری ہے تو دوسری طرف اہل ایمان موسم بَہار (رمضان المبارک) کی آمد آمد پر مختلف انداز میں استقبال کی تیاریاں کر رہے ہیں. مذہبی جماعتیں اور قائدین کورونا وائرس سے تحفظ کے لئے مساجد کی جگہ گھروں میں عبادات کی ادائیگی کے لئے اپیل کر رہے ہیں. لاک ڈاؤن کی وجہ سے بظاہر تو اس قسم کی اپیل کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے مگر عام مسلمان اور قائدین کے درمیان ربط بنائے رکھنے کے لئے اس طرح کی سرگرمیوں کی ضرورت رہتی ہے.
ان اپیلوں میں نماز تراویح کے لئے خاص توجہ دی جا رہی ہے اور یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ جس گھر میں کم از کم چار لوگ ہیں وہاں باجماعت نماز تراویح کا اہتمام کرنا چاہئے اور اس کے لئے قرآن پاک کی آخری دس سورۃ سے لے کر بذریعہ موبائل-فون باجماعت تراویح کی ادائیگی کا مشورہ بھی دیا جا رہا ہے.
تشویشناک بات یہ سامنے آ رہی ہے کہ گھنی مسلم بستیوں میں بھی عالم دین اور حفاظ حضرات کا فقدان ہے جو گھروں میں نماز اور تراویح کی نماز کی امامت کر سکتے ہوں. 
پچھلے سالوں میں تقریباً سبھی بڑے شہروں کی مساجد میں حفاظ حضرات تشریف لاتے تھے کہ ان کو تراویح پڑھانے کا موقع حاصل ہو جائے اور اگر امامت کی گنجائش نہ ہو تو کم از کم سامع کی حیثیت سے ان کا انتخاب کر لیا جائے مگر افسوس کہ خاصی تعداد میں حفاظ کو مایوس ہونا پڑتا تھا اور اس کیفیت پر ہمارے دانشور حضرات کہتے ہوئے ملتے تھے کہ اس طرح کی تعلیم کا کیا حاصل ہے. آج اندازہ ہو رہا ہے کہ حقیقت کیا ہے.
اس سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ پورے ملک خاص طور پر شمالی ہند میں بڑی تعداد میں مدارس موجود ہیں جن کو قائم کرنے اور چلانے والوں میں بڑی تعداد ملت اسلامیہ کے معاشی لحاظ سے کمزور افراد پر مشتمل ہے جو کہ بڑی ہی جفا کشی کے ساتھ ان مدارس کو قائم رکھے ہوئے ہیں. ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی اکثریت بھی ملت اسلامیہ کے ان خاندانوں کی ہوتی ہے جو کہ معاشی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اور مدارس کو فیس دینا تو بڑی بات ہے وہ یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ ان کے بچوں کے قیام و طعام کی ذمہ داری بھی مدرسہ ہی برداشت کرے. 
ان مدارس کو چندہ ملنا بھی آسان نہیں ہوتا بس رمضان المبارک میں ملنے والی زکوٰۃ کی رقم ہی ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہوتا ہے. اس سے قطع نظر کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی زکوٰۃ کی مدات میں اس کی گنجائش ہے یا نہیں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جن افراد پر ہماری مساجد کے آباد رہنے کا انحصار ہے ان کے معاملات و مسائل سے ہم اتنے دور کیوں ہیں. آج جب کہ یہ سارے مدارس موجود ہیں ہم کو حفاظ کی قلت محسوس ہو رہی ہے، کل کو اگر ان کی آدھی تعداد بھی معاشی بحران کی وجہ سے بند ہو گئی تو پھر تصور کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح کے مسائل ہمارے سامنے ہوں گے. صاحب نصاب اور اہل ثروت افراد نے زکوٰۃ کے معاملے میں بھی خود کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی خواہش میں ادائیگی زکوٰۃ کو رمضان المبارک سے مربوط کر دیا ہے اور ان کو شاید یہ بھی خیال نہیں رہا ہے کہ زکوٰۃ تو نماز کی طرح ہی فرض ہے جس کی ادائیگی نہ کرنا گناہ ہے مگر اللہ کے نزدیک تو زیادہ پسندیدہ بات صدقات ہیں. کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ زکوٰۃ تو معاشی سال کی تکمیل پر ادا کی جاتی اور رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ صدقات کا اہتمام کیا جاتا. 
کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے حوالے سے ملّی دینی قائدین کی انفرادی اور اجتماعی طور پر ملت اسلامیہ کے لئے کئی اپیلیں جاری کی گئی ہیں، مناسب ہوگا کہ  ہمارے قائدین ان دینی قلعوں کی بقا اور استحکام کے لئے بھی اپنے اپنے لحاظ سے اپیل جاری کریں اور خود کو ملت اسلامیہ ہند کا سرپرست ہونے کا ثبوت فراہم کریں.
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو آنے والے رمضان المبارک سے دنیا و آخرت کے لئے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا موقع اور توفیق عطا فرمائے آمین


ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی