رمضان المبارک - عید الفطر اور ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی


 


 


محمد خالد
رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے (سورة البقرہ : آیت ۵۸۱)۔ اللہ رب العزت نے پچھلی قوموں کی طرح ہی امت محمد ﷺ پر بھی روزہ فرض کیا اور اس میں خاص طور پر خالق کائنات اور اشرالمخلوقات ’انسان‘ سے روزہ کے تعلق کو اس طرح پیش کیا گیا کہ انسان کی زندگی کے تمام عمل کا حساب کتاب تو اللہ کے دیے ہوئے طریقے کے مطابق ہوگا مگر روزہ صرف و صرف اللہ کے لئے ہے۔ انسان کے سارے معاملات زندگی کا تعلق تو سزا و جزا سے ہے مگر روزہ کو انسان کے لئے تقویٰ اور تزکیہ کا ذریعہ بنا کر واضح طور پر بتایا گیا کہ روزہ تو اللہ کے لئے ہے اور اللہ ہی اس کا بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ رہبر انسانیتﷺ اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ رمضان المبارک کے منتظر رہتے، رجب کا مہینہ آتا تو آپ ﷺ کو رمضان المبارک کے استقبال کے لئے بے چینی شروع ہو جاتی اور شعبان کا آغاز ہوتے ہی روزہ رکھنے کا بھی آغاز ہو جاتا۔ یوں تو نبی کریم ﷺ اکثر و بیشتر روزہ رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے مگر شعبان کے پہلے نصف میں تو پابندی کے ساتھ روزہ رکھتے مگر دوسرے حصے میں وقفے وقفے سے روزہ رکھنے اور دیگر ضروری امور و معاملات سے فارغ ہو جانے کا معمول اختیار فرماتے تھے تاکہ رمضان المبارک کے روزوں کو پوری یکسوئی کے ساتھ رکھا جائے۔ آپ ﷺ کی اتباع میں صحابہ کرام ؓ بھی رمضان المبارک کا اہتمام فرماتے تھے۔ جیسے جیسے رمضان المبارک کے دن گزرتے نبی کریم ﷺ کی عبادات و سخاوت میں اضافہ ہوتا جاتا کیونکہ آپ ﷺ نے رمضان المبارک کو صرف دو کاموں تک محدود فرمایا ہوا تھا، ایک اللہ سے تعلق اور دوسرے اللہ کے حاجتمند بندوں کی ضروریات کی تکمیل۔ رمضان المبارک کے تیسرے عشرے میں نبی کریم ﷺ کی عبادتوں میں اتنا زیادہ اضافہ ہو جاتا تھا کہ شاید اس کی مثال دینا ممکن نہیں ہے۔ آپ ﷺ کی تیسرے عشرے سے اس والہانہ محبت اور تعلق کا ہی شاید نتیجہ ہے کہ اللہ سبحان تعالیٰ نے بھی اس ماہ کے تیسرے عشرے کو اعتکاف اور شب قدر دے کر وہ مقام عطا فرمایا جو سال کے کسی مہینے یا دن کو حاصل نہیں ہے۔ اسی تیسرے عشرے میں وہ رات ہے جس کا کوئی ثانی نہیں، جس کو ہزار راتوں کے برابر اور شب قدر کہا گیا اور کیوں نہ ہو وہ قدر کی رات کہ جس میں رہتی دنیا تک کے لئے انسان کو کتاب ہدایت سے نوازا گیا۔ وہ ہدایت جسے اس سے پہلے انسان تو کیا فرشتوں نے بھی نہیں سنا تھا، ایک ایسی ہدایت کہ جس کو اہل ایمان ہی نہیں اہل کفر بھی چھپ چھپ کر سننے پر مجبور تھے۔
اللہ تعالیٰ نے اس سال کے رمضان کو لاک ڈاو ¿ن کے ذریعہ پوری دنیا کے لئے مبارک بنا دیا ہے اور ہماری خواہش کے بغیر ہم سب کو رمضان المبارک نبی کریمﷺ کی سنت اور صحابہ کرامؓ کے معمولات کے مطابق گزارنے کا موقع نصیب ہوا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اس لاک ڈاو ¿ن کو اللہ کا بہترین تحفہ سمجھیں اور اس ماہ مبارک سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں کیونکہ اس کا ایک ایک پل انتہائی قیمتی اور اہمیت کا حامل ہے مگر افسوس کہ ہم اس کا خاطر خواہ اہتمام کرنے اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے بجائے اس سے بے اعتنائی برتتے ہیں۔ خاص طور پر تیسرے عشرے کی انتہائی اہم راتوں کو اکثر لوگ عید کی خریداری کے نام پر بازاروں کے حوالے کر دیتے ہیں اور دن سونے اور آرام کرنے کی نذر ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کی عبادتوں کے عوض بطور انعام عید کا مبارک دن عطا فرمایا ہے اور اس دن کو ’عید الفطر‘ © کی حیثیت دے کر پوری امت مسلمہ کے لئے خوشی منانے کا دن قرار دیا ہے یعنی نماز عید سے قبل ہر ایک کو اپنے پاس پڑوس میں رہنے والوں کو بھی عید کی خوشی میں شامل ہونے کے لئے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔
ہم اللہ جل شانہ کے تحفہ عید کو اس طرح منائیں کہ اپنے اہل و عیال کی عید کی خوشیوں اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ صدقہ فطر اور دیگر صدقات کے ذریعہ اپنے پڑوس کے افراد خصوصاً بچوں کو عید کی خوشی حاصل کرنے کا موقع فراہم کریں۔
اللہ کریم ہم سب کو ہر قسم کی افراط و تفریط اور شیطانی فتنوں سے محفوظ رکھے اور اپنی زندگی کے سبھی معاملات کو اپنی ہدایت اور نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ نے قرآن پاک میں ہمارا تعارف اس طرح کرایا ہے۔ تم دنیا میں وہ بہترین گروہ ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو(سورة آل عمران:آیت ۰۱۱) 
آئیے مندرجہ بالا قرآنی تعارف کی روشنی میں معاشرتی لحاظ سے اپنی زندگی کا جائزہ لینے کی کوشش کریں۔ اللہ کے نزدیک ہر اعتبار سے قوی مومن پسندیدہ ہے۔ معاشی قوت کے لئے بھی اللہ نے بہترین اصولوں سے نوازا ہوا ہے۔ اللہ نے بہت وضاحت کے ساتھ ہر قسم کی ذخیرہ اندوزی اور خود غرضی سے منع فرمایا ہے۔ نبی کریمﷺ کے ذریعہ مال و اسباب ہی نہیں بلکہ علم کے لئے بھی تعلیم دی گئی ہے کہ تم کو اگر ایک بات کا بھی علم ہے تو اس کو دوسروں تک پہنچا دو۔ مال و دولت کو بھی ضرورت سے زیادہ روکنا پسندیدہ عمل نہیں کہا گیا ہے کیونکہ دولت میں جب ٹھہراو ¿ نہیں ہوگا تو معاشرے میں غربت اور افلاس کی قلت ہوگی۔ شاید اس قلیل تعداد کو ہی سامنے رکھ کر زکوٰة کو صرف ڈھائی فیصد ہی رکھا گیا ہے کیونکہ جب ہم اللہ کی ہدایت کے مطابق عمل کریں گے تو پھر ہمارے درمیان ایسے لوگ کم ہی ہوں گے جن کو زکوٰة کی رقم سے مدد کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اللہ کے ذریعہ بتاءگئی زکوٰة کی اکثر مدات سے انسان کا مستقل نہیں بلکہ وقتی طور پر ضرورت مند ہونا ظاہر ہوتا ہے۔
اللہ کے دیے ہوئے معاشی اصولوں کے عملاً فقدان کے باعث ملت اسلامیہ کی بڑی تعداد معاشی کمزوری کا شکار ہے جس پر قابو پانے کے لئے رمضان المبارک میں تو ملت اسلامیہ کے درمیان معاشی طور پر کمزور لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی اور زکوٰة کی رقم کو استعمال کرنے پر خوب بات کی جاتی ہے مگر عام دنوں میں مال کے تعلق سے اسلامی تعلیمات پر توجہ نہیں دی جاتی جس کے نتیجے میں اللہ جن لوگوں کو قلیل تعداد میں دیکھنا چاہتا ہے ان کی بہتات ہو جاتی ہے اور قلیل تعداد کے لئے زکوٰة کی شکل میں جو نظم عطا کیا گیا ہے وہ مستحقین کی کثیر تعداد میں ہو جانے کے سبب انتہائی کم پڑ جاتا ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لئے زکوٰة کے اجتماعی نظم کے قیام کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے مگر اس سے قبل کہ ذمہ داران ملت کسی فیصلہ کُن نتیجے تک پہنچیں، رمضان المبارک گیارہ مہینوں کے لئے ہم سے رخصت ہو جاتا ہے۔
 زکوٰة کے اجتماعی نظم کی منصوبہ بندی کے ساتھ ہی عام دنوں میں دولت کے حصول اور استعمال پر بات شروع کی جانا چاہئے۔ اسلامی معاشی نظام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی جائے اور لوگوں کو مال کی ذخیرہ اندوزی کے بجائے مال کو سرکولیشن میں رکھنے پر متوجہ کیا جائے کیونکہ اس میں ہی فرد اور معاشرہ کی بھلائی ہے۔
عام طور پر زکوٰة رمضان میں ہی ادا کی جاتی ہے کیونکہ رمضان المبارک میں کئے گئے کار خیر کا ثواب ستر فیصد مانا جاتا ہے مگر ہمیں یہ بھی احساس رہنا چاہئے کہ اس ستر فیصد کی بنیاد عام دنوں میں حاصل ہونے والا ایک فیصد ثواب ہی ہے۔ لہٰذا بنیاد کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے تو عمارت بھی خوب مضبوط ہوگی انشاءاللہ۔
الحمدللہ ملت اسلامیہ میں دین کی تعلیمات حاصل کرنے کا مزاج پیدا ہوا ہے اور دینی اجتماعات کے ساتھ ہی آن لائن دینیات اور عربی زبان سیکھنے کا شوق پایا جاتا ہے مگر چونکہ رمضان المبارک تقویٰ اور تزکیہ و خود احتسابی کا ذریعہ ہے لہٰذا ہم کو اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان بڑھی ہوئی دینی سرگرمیوں کے باوجود ہمارے اخلاقی اور معاشرتی معاملات تنزلی کا شکار کیوں ہیں۔ ہم کو معاشرے میں عزت کیوں حاصل نہیں ہے۔ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کے طفیل ہم کو خیر امت ہونے کا شرف حاصل ہے اور سبھی انسانوں کی خیر خواہی ہماری دینی ذمہ داری ہے اس کے باوجود برادران وطن ہم سے بد دل اور بدگمان کیوں رہتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو رمضان المبارک کی سعادتوں کی برکت سے زندگی کے ہر معاملے کا جائزہ لینے اور اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔


 


جدید تر اس سے پرانی