قاری ہدایت اﷲ صدیقی کی بیاد عنایت اللہی دارالقرا میں نشست کا انعقاد

 



لکھنو ¿۔ مرحوم قاری ہدایت اﷲ صدیقی ؒ سے اﷲ تعالیٰ نے جو قرآن کریم کی خدمت کا کام لیا یہ حضرت قاری صاحب پر خدائے عزوجل کا خاص کرم واحسان تھا۔ ایسی توفیق اﷲتعالیٰ اپنے مقبول بندوں میں سے مخصوص بندوں کو ہی عطا فرماتا ہے۔ تقریباً نصف صدی پر محیط آپ کی خدمت ِ قرآن کاثمرہ ہے کہ لکھنو ¿ شہر میں اور بیرون ممالک میںآپ کے براہِ راست شاگرد یا شاگردوں کے شاگرد درس وتدریس میںمشغول ہیں۔ اسی بنا پر آپ ”خادم القرآن“کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ قاری صاحب کو قرآن کریم سے کس قدر لگاﺅ تھا۔ اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ آپ نے ہمیشہ قرآن کریم کی خدمت کو اپنااوڑھنا بچھونا بنا لیا،ہمیشہ سادہ طرز زندگی کو اختیار کیا ، خوراک، پوشاک اور رہائش سب کچھ اسی وصف کا آئینہ دار رہے، ہر طرح کے تکلفات سے آپ کوسوں دور تھے۔
ان خیالات کااظہار خانوادہ ¿ عنایت اللّہی دارالقراءمیں مدرسہ تجوید الفرقان کے شعبہ حفظ کے استاد قاری شہاب اﷲ صدیقی نے کیا۔وہ آج خانوادہ کے بزرگ مرحوم قاری ہدایت اﷲ صدیقی ؒ کے یوم وفات کے موقع پرکاشانہ ¿ہدایت میں نشست سے خطاب کررہے تھے۔
اس موقع پر قاری صاحب نے مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم قاری صاحب کی ولادت یکم دسمبر ۵۴۹۱ئ کو ہوئی۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مرحوم حافظ عنایت اﷲ صدیقیؒ امام مسجدسے حاصل کی۔ حفظ کی تکمیل مدرسہ تجوید الفرقان میں قاری مظفر علی صاحب سے کی۔روایت حفص کی دستار قاری عبدالمعبودؒصاحب اور قرا ¿ت سبعہ وثلٰثہ کی دستار قاری محب الدینؒ صاحب سے حاصل کی۔ ۰۶۹۱ئ ۱میں مدرسہ تجوید الفرقان میں قاری عبدالمعبودؒ اور قاری محب الدینؒ صاحبان کے معین رہے۔ فن تجوید وقرا ¿ت میں اچھی صلاحیت رکھتے تھے۔شہر واطراف شہر میں اپنی لحن داﺅدی سے چھائے ہوئے تھے۔ ریڈیو اسٹیشن سے مسلم تیوہاروں کے موقع پر آپ کی ریکارڈنگ براہِ راست نشر کی جاتی تھی۔ مدرسہ تجوید الفرقان میں تقریبا دس سال خدمت انجام دینے کے بعد دارالعلوم ندوة العلماءکے معہد سے وابستہ ہوگئے تھے، ۴۱۰۲ئ میں ریٹائرڈ ہوگئے البتہ توسیع پر تادم حیات خدمت انجام دیتے رہے تھے،آپؒ ذیابیطس کے مریض تھے ، اپنی ڈیوٹی پر سختی سے پابند رہتے تھے، شعر وشاعری سے بھی بہت لگاﺅ رکھتے تھے، ہدایت ت ±خلص تھا۔ ۲مئی۷۱۰۲ئبروزسہ شنبہ بوقت ۲۱بجے دوپہر عاشق قرآن کا یہ عندلیب ہمیشہ کے لیے ہم سب سے جدا ہوگیا۔
قاری شہامت اﷲ صدیقی نے کہا کہ ہم جیسے طفلان مکتب نے انہیں ضعف اور کبر سنی کی حالت میںہی دیکھا تھا لیکن اس عمر میں بھی ان کی ہمت وعزیمت اور ان کا جذبہ وحوصلہ ہم جوانوں کے لیے قابل رشک تھا۔ ان کے اوصاف وکمالات کا صحیح صحیح ادراک بھی ہم جیسوں کے لیے مشکل ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ مرحوم قاری صاحب کے پیکر میںمعصومیت ، حسن اخلاق اور علم وعمل کے جو نمونے ان آنکھوں نے دیکھے ہیں ان کے نقوش دل ودماغ سے محو نہیں ہوسکتے۔
قاری صبیح اﷲ صدیقی نے کہا کہ مرحوم ومغفور قاری صاحب ؒ کی ذات سے مدرسہ تجوید الفرقان کا عروج جھلک رہا تھا ۔ دس سال کی مدت میں قاری محمد انس، قاری محمد مطلوب علی گونڈوی جیسے درخشاں ستارے آپ کی تربیت سے چمکے۔
نشست کے اختتام پر قاری عبید اﷲ صدیقی نے مرحوم ومغفور کے درجات بلندی کے لیے نہایت الحاح وزاری سے بارگاہ رب ذو الجلال میں دعا کی۔


 


ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی