اے ایم یو کے سائنسداں کی بڑی کامیابی

 



جگر کے کینسر پر اے ایم یو کے سائنسداں کی تحقیق مو ¿قر بین الاقوامی سائنسی جریدے میں شائع ہوئی
علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کے شعبہ ¿ علم الحیوانات کے سائنسداں، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حِفظ الرحمٰن صدیق نے یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا (امریکہ) کے پروفیسر کیگو مشیدا اور دیگر سائنسدانوں کے ساتھ مل کر اس بات کی دریافت کی ہے کہ جگر کے کینسر کا سنٹرل ریگولیٹری پاتھ وے ، الکوحل اور ہیپاٹائٹس انفیکشن کے باعث نمو پاتا ہے۔ اس نئی تحقیق سے جگر کے کینسر جیسی مہلک بیماری کے علاج میں نئے طریقہ سے مدد ملنے کی امید ہے۔ سائنسدانوں کی یہ تحقیق حال ہی میں مو ¿قر بین الاقوامی سائنسی جریدے ”نیچر کمیونکیشنس“ میں شائع ہوئی ہے۔ 
 خیال رہے کہ جگر کو انسانی جسم کا پاور ہاو ¿س کہاجاتا ہے ۔ طرز زندگی میں تبدیلی، الکوحل کے غیرمتوازن استعمال اور ہیپاٹائٹس وائرس کے انفیکشن کی وجہ سے ہر روز جگر کے کینسر کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جگر کے صحت مند خلیے کس طرح سے کینسر میں تبدیل ہونے لگتے ہیں اسے ابھی جزوی طور سے ہی سمجھا جاسکا ہے۔ نئی تحقیق سے جگر کے کینسر کے مو ¿ثر علاج کی امید پیدا ہوئی ہے۔ 
 ڈاکٹر صدیق کی تازہ تحقیق میں کینسر کا سبب بننے والی پروٹین ’ٹی بی سی 1ڈی 15‘کے مولیکیولر میکینزم کو سمجھا گیا۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ کینسر کے خُلیوں اور کینسر کے خام خُلیوں میں ’ٹی بی سی 1ڈی 15‘ پروٹین جمع ہوتا ہے ۔ ’ٹی بی سی 1ڈی 15‘ خلیوں کی معمول کی تقسیم اور ٹشو بننے میں رکاوٹ پیدا کردیتا ہے جس سے کینسر پروان چڑھتا ہے۔ اِن خلیوں پر ڈاکٹر صدیق تقریباً ایک دہائی سے کام کررہے ہیں اور انھوں نے اے ایم یو میں کینسر اِسٹیم سیل پر تحقیق کے لئے ایک خصوصی لیب بھی قائم کی ہے۔ 
 ڈاکٹر صدیق نے اپنے ریسرچ پیپر میں یہ ثابت کیا ہے کہ الکوحل کے استعمال اور ہیپاٹائٹس انفیکشن سے جگر میں کینسر پنپنا شروع ہوتا ہے جو بنیادی طور سے کینسر اِسٹیم سیل (خام خُلیے) کے ذریعہ فروغ پاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کینسر کے خام خلیے ٹیومر میں پائے جانے والے نادر خُلیے ہوتے ہیں جن سے کینسر کا جنم ہوتا ہے اور وہ خطرناک مرحلہ تک پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ یہ ثابت ہوا کہ یہ خلیے ہر طرح کے کینسر کا بنیادی سبب ہیں۔ علاج کے ابتدائی مرحلہ میں کینسر کے خُلیوں کو یا تو کیمیوتھیریپی دواو ¿ں سے یا تابکاری سے ختم کیا جاتا ہے ۔ تاہم کچھ خُلیے بچ جاتے ہیں جن سے ٹیومر بن جاتا ہے اور کچھ دنوں کے بعد کینسر ایک بار پھر ہوجاتا ہے۔ 
 ڈاکٹر صدیق نے بتایا کہ جگر کے کینسر کے ہر سال پانچ لاکھ نئے معاملے سامنے آتے ہیں جن سے متاثر افراد کے بچنے کی شرح صرف 10-20فیصد ہے جب کہ پستان کے کینسر سے متاثر ہونے والے افراد کے بچنے کی شرح 91فیصد ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جگر کے کینسر کے 80-83 فیصد معاملے ترقی پذیر ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ 2014ءمیں کینسر پر ہی ان کی ایک تحقیق کو امریکی محکمہ ¿ دفاع نے گرانقدر تحقیق کے طور پر منتخب کیا تھا۔ سائنس کے مختلف موضوعات پر ان کے مضامین عوامی اخبارات و رسائل میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔


جدید تر اس سے پرانی