بہار مدھوبنی:سنگرام کے مشہورعالم دین مولانا اجتبیٰ حسن قاسمی کے انتقال پر جے این یو کے پروفیسرقطب الدین کا خراج عقیدت!
ابھی چند روز پہلے یعنی نوجون ۲۰۲۰کو ہی اپنے ایک مشفق استاد پروفیسر ولی اختر ندوی،شعبہ عربی،دہلی یونیورسٹی،کی کروناوائرس سے انتقال کا صدمہ بھلا بھی نہیں پایا تھا کہ پندرہ جون تقریباً ساڑھے پانچ بجے شام کو میرے بڑے بھائی جناب ماسٹر قمرعالم صاحب نے فون پر بتایا کہ مولانااجتبیٰ قاسمی صاحب اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ تھوڑی دیر کے لئے میں سکتہ میں پڑ گیا اور آپ کا وہ خوبصورت نورانی مسکراتا چہرہ چھریرہ بدن اور لمبا قد میرے سامنے گھومنے لگا۔
دراصل اجتبیٰ بھائی مرحوم (مولانااجتبیٰ حسن قاسمی،میں ہمیشہ سے ان کو اجتبیٰ بھائی ہی کہا ہے) سے میراتعلق چونتیس پینتیس سال پرانہ ہے۔یہ اس وقت کی بات ہے جب میں اپنے سب سے پہلے مادرعلمی "مدرسہ عارفیہ سنگرا"مدھوبنی بہار میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے گیا تھا۔میں اس وقت بہت دبلا پتلا اور کم سن تھا۔"سنگرام" میرے کرم فرما پھوپھاجان جناب الحاج عیسیٰ صاحب(اللہ تعالیٰ آپ کو صحتیاب رکھےاور آپ کی عمر دراز کرے،آمین)کا آبائی وطن ہے۔اس لئے گاؤں کے اکثر لوگ مجھے پہچانتے تھے۔میں وہاں کے لوگوں کا عزیز اور سب کا دلارا تھا۔میرے عیسیٰ پھوپھا اور اجتبیٰ بھائی کے والد محترم جناب مرتضیٰ صٓحب کے درمیان دوستانہ اور پرانی رشتہ داری ہونے کے ناطے اچھے تعلقات تھے۔جس کی وجہ سے میرے تعلقات بھی اجتبیٰ بھائی اورر ان کے گھروالوں سے اچھے ہوگئے تھے۔ان کے دیگر بھائی بھی مجھے اپنا بھائی اور ان کے والدین اپنے بیٹے کی طرح مانتے تھے۔ایسا لگتا کہ ہم سب ایک ہی فیملی کے لوگ ہیں۔یااللہ! یادیں اتنی پرانی ہونے کے باوجود جب میں اپنی ماضی کے جھروکوں سے جھانکتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ مدرسہ عارفیہ،سنگرام،کے زمانہ طالب علمی میں بعد نماز عصر ہم اجتبیٰ بھائی کے ساتھ تفریح کے لیے نکلتے تھے اور وہاں کے مشہور لوہا پل پر جاکر بیٹھتے اور کبھی اس سے آگے جاکر واپس آتے۔
اعلیٰ تعلیم کے لیے انہوں نے "دیوبند" کا رخ کیا اور وہاں سے اچھے عالم بن کر نکلے۔مرحوم اجتبیٰ بھائی سےمیری قربت اس وقت اور بھی بڑھ گئی جب آپ میرے استاد اور پیرو مرشد الحاج محمد قاسم صاحب حفظہ اللہ کی دخترنیک اختر کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔
ناجانے کیوں میرااجتبیٰ بھائی مرحوم سے فطری لگاؤتھا؟حالانکہ ملاقات برسوں بعد ہوتی لیکن جب بھی ہوتی تو وہی اپنا پن وہی پیار وہی شفقت و محبت وہی ہنسی مزاق اور وہی بے تکلفانہ گفتگو جو بچپن میں مدرسہ عارفیہ میں ہوا کرتی تھی۔مجھے یاد ہے ادھر کچھ برسوں پہلے آپ دہلی مدرسہ عارفیہ کے کام سے تشریف لائے تھے۔مجھے فون کیا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔میں نے انہیں جے این یو کی اپنی قیام گاہ پر مدعو کیا۔وہ تشریف لائیں اور کافی دیر تک ہماری رہائش گاہ پر رکے۔اس درمیان بہت ساری نئی پرانی یادیں تازہ ہوئیں۔وہ مجھے پیار سے مولانا قطب الدین ندوی پکارتے اور میں بچپن سے آج تک اجتبیٰ بھائی ہی کہتا رہا۔جو ان کو پسند آتا تھا۔
اللہ تعالیٰ مغفرت فرامائیں مرحوم اجتبیٰ بھائی کی۔وہ بےلوث اور صابر شاکر انسان تھے۔چاہے جتنی پریشانی ہوہمیشہ مسکراتے رہتے اور خوشی کا اظہار کرتے۔
بلاشبہ اجتبیٰ بھائی ایک جید عالم اور مدرسہ عارفیہ کے ماہر استاد تھے۔جو بچوں کی زندگی سنوارنے کے لئے ہماتن مصروف رہتے۔آپ شرعی علوم فنون کے اچھے عالم ہونے کے ساتھ ساتھ عربی زبان و ادب کے بہترین اسکالر تھے۔اس جواں سالی میں آپ کا اس دارفانی کو الوداع کہنا علم و ادب کی دنیا کا ایک بہت بڑا خسارہ ہے۔"موت العالم موت العالم"(ایک عالم دین کی موت پوری دنیا کی موت ہے) کے مصداق ہے۔
مرحوم اجتبیٰ بھائی کے موت کی خبر کے سلسلے میں جب میری بات پھوپھازاد بھائی موسیٰ رضا اور ہارون رشید سے ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ سنگرام سے حضرت مولانامفتی عتیق اللہ ،حضرت قاری عرفان اور حضرت ڈاکٹر افتخار مرحوم کے بعد سنگرام سے ایک اور تعلیمی دنیا کے طلسماتی چراغ گُل ہوچکے ہیں۔جس کی وجہ سے علاقے ویرانی کا منظر ہے۔
آہ! اجتبیٰ بھائی۔۔۔
آپ میرے بچپن کے دوست اور خیرخواہ رہے۔اتنی جلدی آپ کی جدائی سہی نہیں جاتی۔یقین نہیں ہوتا کہ آپ ہمارے بیچ نہیں ہے۔آپ کے اور آپ گاؤں کے ساتھ اتنی یادیں وابستہ ہیں۔جنہیں لفظوں میں صفحہ قرطاس پر بیان نہیں کیا جاسکتا۔موت ایک کڑوی حقیقت ہے۔آپ اللہ کے محبوب بندہ تھے۔جو اپنی دنیاوی ذمہ داری پوری کر کے داعی اجل کو لبیک کہا اور ہمیں سوگ وار چھوڑ کر چلے گئے۔بچپن کے دوست سے لگاؤ اور اس سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ جانے کا غم کوئی دوسرا کیا جانے؟میری آنکھیں اشکوار ہیں۔سمجھ میں نہیں آتا کن لفظوں میں آپ کی مقدس ذات کو خراج عقیدت پیش کروں۔مدرسہ عارفیہ میں آپ کے ساتھ گذارا ہوا بچپن یاد آرہا ہے۔
آپ کے لیے دعاء مغفرت کرنا ہمارا فرض تو ہے ہی۔ساتھ ہی آپ کی بے وقت جدائی پر بہت ملال آتا ہے۔آپ اپنے پیچھے بہت سارے چاہنے والوں کو چھوڑ گئے۔اللہ پاک آپ کی لغزشوں کو معاف کرے،جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاءفرمائیں اور پسماندگان کو صبرجمیل عطاء کرے۔آمین۔
چھوڑکر اتنے دیوانے کدھر کو چل دئے
شام کو آتے ہیں سب گھر تم سفر کو چل دئے