*آیا صوفیہ مسجد*

 















    
 



 

 

 

 



 





محمد خالد.

عالمی سطح پر موجودہ حالات میں جس طرح اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں مسلمان الگ تھلگ پڑتے جا رہے ہیں اس کا مسلمانوں پر کافی دباؤ ہے جس کی وجہ سے مسلم قائدین اس کیفیت سے نکلنے کے لئے دوسری اقوام کے ساتھ خیر سگالی اور ہمدردی کا اظہار کرنے کے لئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں اور خود کو ایک ہمدرد کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے. ہمارے قائدین کہیں مسجد کو کورنٹائن سنٹر بنانے کی پیشکش کر رہے ہیں تو کہیں حج ہاؤس اور دینی تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو مفاد عامہ میں استعمال کرنے کی بات کہی جا رہی ہے. بغیر اس بات کا لحاظ کئے کہ کورونا کی وبا تو وقتی مسئلہ ہے مگر مذہبی مقامات کے تعلق سے ہماری اس طرح کی پیشکش کہیں ایک نظیر نہ بن جائے اور پھر مستقبل میں حکومت جب چاہے، ان مقامات کو اپنے استعمال میں لینا اپنا اختیار سمجھے.

اسلام انسانی ہمدردی کی معراج ہے لہٰذا مساجد و دیگر مذہبی مقامات ہی نہیں بلکہ ہماری رہائش گاہیں بھی مفاد عامہ میں استعمال کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی خیال رہے کہ ان سب پر ہمارا ہی اختیار رہے تاکہ ان مقامات کا مستقبل میں کسی غیر شرعی استعمال کا اندیشہ نہ ہو. 

ترکی کی آیا صوفیہ مسجد کے تعلق سے بھی لوگ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق معاملے کو سمجھنے کے بجائے اپنے روشن خیال ہونے کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اسی جوش میں میوزیم کو چرچ ثابت کرنے پر زور لگائے ہوئے ہیں. یہ ممکن ہے کہ وہ عمارت چرچ کی حیثیت سے تعمیر کی گئی ہو مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں چرچ کو فروخت کرنے کے بے شمار معاملات موجود ہیں تو عین ممکن ہے کہ اس چرچ کو خرید کر مسجد کا مقام دیا گیا ہو اور یہ بات بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ الحمدللہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی مقام کو غصب کر کے مسجد تعمیر کی جائے یا عمارت کو مسجد کا نام دیا جائے.

دوسری عجیب بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر کہیں سے بھی کوئی ایسی شخصیت یا تنظیم نظر نہیں آ رہی ہے جو کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں خیر خواہی اور صلہ رحمی کے اصولوں اور ضابطے کے مطابق معاملات کو حل کرنے کی بات کرے. بلا شبہ مسلم تنظیموں اور اداروں کی جانب سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے پریشان حال لوگوں کے ساتھ غیر معمولی تعاون کیا گیا ہے اور اس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے مگر اس پورے عمل کی کیفیت ایسی رہی ہے کہ جیسے ملت اسلامیہ معاشرے کے تئیں اپنی صفائی پیش کر رہی ہو اور معاشرے کو بتا رہی ہے کہ ہم تمہارے خیر خواہ ہیں.

اللہ رب العزت نے محمد صل اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی و رسول بنا کر آپ صل اللہ علیہ وسلم کی امت کورہتی دنیا تک کے لئے خیر امت کا منصب عطا فرمایا ہے جس کے سامنے سب سے بڑا مقصد خود کو، اپنے اہل و عیال کو اور انسانیت کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچانے کی جدوجہد کرنا ہے. ہم نے اگر اس عارضی زندگی میں خود کو خیر خواہ ثابت بھی کر لیا مگر انسانیت کو دائمی زندگی کے نقصانات سے بچانے کی فکر اور جدوجہد نہ کی تو کیا ہم کو اللہ کی عدالت میں ایک مسلمان کی حیثیت حاصل ہوگی. اللہ ہم سب کو اس دائمی نقصان سے محفوظ رکھے آمین.

 





ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی