منشی پریم چند کی عصری معنویت پر ویبنار 


     
  آگرہ : بیکنٹھی دیوی کنیا مہا ودیالیہ کے شعبئہ اردو کے زیر اہتمام ”منشی پریم چند کی عصری معنویت “ پر قومی ویبینار 
   منعقد کیا گیا۔ صدر شعبئہ اردو ڈاکٹر نسرین بیگم نے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ منشی پریم چند اردو ادب کے وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے چھوٹے چھوٹے قصوں کے پیرائے میں نہایت سادگی کے ساتھ دیہاتی زندگی کی اور ہمارے روز مّرہ کی ضرورتوں پر بہت خوب لکھا ہے۔ پریم چند کا ادب بیسوں صدی کا ہی نہیں بلکہ ہمارے عہد کا سچاّ ادب ہے۔ آج منشی پریم چند کی ضرورت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اس جیسا قلم کار جس کے افسانوں کا پہلا مجموعہ سوزوطن ۸۰۹۱ میں شائع ہوا تو برٹش سرکار کو اس کتاب میں بغوت کے جزبے کی جھلک نظر آئی ۔اس وجہ سے اسے ضبط کر لیا ۔پریم چند نے دیکھا کہ یہاں ہماری قلم کی آزادی سلب ہو رہی ہے تو ملازمت سے استعفا دے دیا ۔اور اپنی پوری زند گی تصنیف وتالیف میں گزار دی۔
          جو لہو سے جلائے ہم نے چراغ 
          کتنی صدیوں کے کام آئے ہیں 
  کالج کی پرنسپل ڈاکٹر نیتا گپتا نے پروفیسر اشوک متّل صاحب وائس چانسلر ڈاکٹر بھیم راﺅ امبیڈکر یونیورسٹی ،آگرہ ،وہ اس ویبینار کے 
 مہمان خصوصی تھے ان کا اور اس ویبینار سے جڑے ہوئے تمام لوگوں کا خیر مقدم کیا ۔ شیخ الجامعہپروفیسر اشوک متّل نے اپنی تقریر میں کہا کہاردو ڈپارٹمنٹ ڈاکٹر نسرین بیگم کے نام سےجانا جاتا ہے ۔وہ آج ایسے شخص پر ویبینار کرا رہی ہیں جو ہم سب کے قریب ہے ۔بچپن سے ہی منشی پریم چند کے افسانوں کا چھاپ دل و دماغ پر ہے۔وہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا افسانہ نگار ہے ۔راشٹر کی کون سی ایسی مشکلات نہیں ہے جس پر منشی پریم چند نے نہ لکھا ہو ۔گﺅدان میں گوبر کا ذکر کرتے ہیں نے کہا کی آج جو مائگریٹ لیبر ہیں ان کو اس کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ اہم بات ہے کہ پریم چند کو سبھی اپنا بتاتے ہیں ۔وہ فری لانسرتھے۔ سماج میں برائیاں آئیں اس کا ذکر کیا ۔برائیاں آج بھی ہیں ۔ایسا قلم کار جس نے ۵۸ سال پہلے یہ بات کہی ۔عام انسانوں کی مشکلات کو لوگوں تک پہونچایا ۔منشی پریم چند کی دو بھائیوں کی کہانی اپنے اور اپنے بھائی کی لگتی ہے ۔انکی کہانیوں نے ہمیں متاّثر کیا ہے ۔ ہمیں اکیسویں صدی میں ان جیسا کوئی نظر نہیں آتا ۔میں اس عظیم شخص کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں ۔ کلیدی خطبہ سابق صدر شعبئہ اردو ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پروفیسر صغیر افراہیم نے پیش کیا ۔انہوں نے کہا کہ پریم چند کی کہانیوں کی اہمیت موجودہ دور میں اور زیادہ ہے ۔اسی لئے ہندوستانی زبان و ادب میں انکی فکر پر متواتر گفتگو ہوتی رہتی ہے ۔پریم چند کو اپنے ملک اور
 ملک کے عوام سے محبت ہی نہیں عشق تھا ۔انکی یہ سوچ انکو ادب کے مشکل راہ پر لے آئی اور انہوں نے اسے پوری سنجیدگی سے ملک و قوم 
 کی خدمت کا ذریعہ بنایا ۔پریم چند نے جس طرح لکھا راشدالخٰیری نے اسکا اعتراف کیا کہ پریم چند بڑا افسانہ نگار ہے ۔۵۳ سال تک 
 لکھتے رہے ۔پریم چند اردو کے ادیب ہیں اور ہندی کے بھی ۔پریم چند نے نقاد کی حیثیت سے بھی اپنا درج کرایا ہے ۔نئی کتابوں پر رائے بھی دئے ہیں ۔۱۲۹۱ انکی زندگی میں اہم تھا ۔ملک کے عوام کے لئے بہت کچھ سوچتے رہے ۔وہ وکالت کرتے ہیں اردو ہندی ہندوستانیت 
 کی۔قومی استحکام اور امن و انسانیت کی بات کرتے ہیں ۔آج نمک کا داروغہ کی ضرورت ہے ۔رشوت ناسور ہے ،دیمک کی طرح ہے ۔
 کسان اور مزدور آج بھی بے بس ہیں ۔افسانہ اماوس کی رات میں وید اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھتا ہے ۔جیسا آج ہو رہا ہے ۔حق اور انصاف
 کی لڑائی جاری رہے گی ۔آج انکی اہمیت اور افادیت پہلے سے کہیںاور زیادہ ہے آج وبائے عام کووڈ ۹۱ میں سب کو کسی نہ کسی زاوئے
 سے پریم چند یاد آرہے ہیں ۔۱۰۹۱ سے ۰۲۰۲ تک مختلف زاویے نگاہ سے کسی نہ کسی طرح سے پریم چند کو اپنا آئڈیل بنایا ہے۔ اسکے بعد ڈاکٹر وکرم سنگھ سابق سیکریٹری اسٹیٹ ٹراسپورٹ اتھارٹی ،اتر پردیش نے کہا کہ جن چیزوں کو ہم دیکھ رہے ہیں منشی پریم چند نے ۰۸ سال پہلے دیکھا تھا ۔چاہے وہ کسانوں یا سود خوروں کی بات ہو ۔آج بھی وہی سب موجود ہے ۔پریم چند نے قلم سے وہ کام لیا جو آج وہ کام کیمرے بھی نہیں کر سکتے ۔وہ پریم چند نے الفاظ کے ذریعے کر دیکھائے ہیں ۔منشی پریم چند اپنے ان خیالات سے ہمار ے بیچ کھڑے ہیں ۔چاہے وہ کمیو نل ہارمنی کی بات ہو یا عورتوں کی بچوں یا کسانوں کی بات ہو ۔کووڈ ۹۱ میں جن مزدوروں کو ممبئی سے کلکتے تک اپنے ماں باپ کو کندھے پر لے کر جانا پڑا ،چھو ٹے چھوٹے بچےّ کس طرح سے آگے بڑھے آج سے ۰۸ سال پہلے ان صفحات پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ جو پریم چند نے لکھا ہے آج ویسے ہی ہمیں نظر آرہے ہیں ۔
      پروفیسر محمد معظم الدین ڈپارٹمنٹ آف ایجوکیشن ان لینگویجز اردو ،این سی ای آرٹی ،دہلی نے کہا کہ منشی پریم چند
 کے یہاں مذہبی ،سیاسی ،غریب اور کمزور طبقے کی سچیّ تصویر ملتی ہے ۔انکے یہاں جو ز بان کا رچاﺅ ہے وہ ہمیں باربا رپڑھنے پر مجبور کرتا ہے 
 کووڈ ۹۱ میں ہم نے جس طرح دن گزار رہے ہیں ایسی صورت میں ہم پریم چند کو دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ آج بھی ہمیں بڑے بڑے شہروں 
 سے اپنے قصبے کی طرف لوٹتے ہوئے وہی سب کچھ سامنے ہے جو پریم چند لکھ گئے۔ایسے میں نظیر اکبرآبادی کا یہ شعر یاد آجاتا ہے۔۔
        
       صحرا میںمیرے حال پہ کوئی بھی نہ رویا
       گر پھوٹکے رویا تو میرے پاوئں کا چھالا 
 انسانیت کہاں دب گئی ،ختم ہو گ ¾ی ۔پریم چند کے یہاں جو زندگی کا نظریہ ہے وہ ہمارے لئے بہت کارآمد ہے ۔آج بھی اسکول اورجامعات
 میں پریم چند نصاب میں شامل ہیں ۔پریم چند ہمارے نصاب کے لئے بہت ضروری ہیں ۔وہ زبان کے جادوگر کہلاتے ہیں ۔انکے 
 افسانے کی خاص بات یہ ہے کہ پڑھنا شروع کرتے ہیں تو ختم کئے بنا نہیں رہ سکتے۔
           سخن میں سوز ، الہی کہاں سے آتا ہے
           یہ چیز وہ ہے کہ پتھرّ کو بھی گداز کرے صدارتی خطبہ پروفیسر علی احمد فاطمی ،سابق صدر شعبئہ اردو الہ آباد یونیورسٹی نے پیش کیا ۔انہوں نے کہا ہر صدی میں پریم چند نہیں پیدا ہوتے ہیں۔منشی پریم چند علامہ راشد الخٰری ،شرر،سرشارکے ناول پڑھتے ہیں اور اس مطالعے میں سے انسانوں کی دردمندی اور انسانی شعور کو لے کر نکلتے ہیں ۔انکی پہلی کہانی بڑے گھر کی بیٹی ہے ۔ایک معمولی عورت کی کہانی ہے ۔ایک لمبی روایت تھی تصور حسن کی،اس سے پریم چند نے انحراف کیا ۔سچ کی اپنی جمالیات ہے ان کے یہاں بدصورت لوہے کا چمٹا جیت حاصل کرتا ہے اور خوبصورت متی کا کھلونا گھر لاتے ہی ٹوٹ جاتا ہے ۔کفن ،ٹھاکر کا کنواں ،ہوری ،ہلکو ،،دلت ذات پات کے خلاف جو پریم چند نے لکھا تھا وہ آج بھی ہے۔ ہمیں انکے ادب کو پڑھنے کی ضرورت ہے ۔       آخر میں ڈاکٹر الکا اگروال آئی کیو اے سی کوآرڈی نیٹر بیکنٹھی دیوی گرلس پی جی کالج نے سبھی کا شکریہ ادا کیا ۔اس اردو ویبینار میں پورے ہندوستان سے لوگ جڑے ہوئے تھے ۔ویبینار کی نظامت کے فرائض کنوینر صدر شعبئہ اردو ڈاکٹر نسرین بیگم نے انجام دیئے ۔
                
           
         



 
 


 


  


ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی