آن لائن ادبی فورم ”بازگشت“ کا افتتاح

 



 پروفیسر نسیم الدین فریس، ڈاکٹرمحمد کاظم ، ڈاکٹر مسرت جہاںا ور دیگر کی مخاطبت

حیدرآباد، 9 اگست (پریس نوٹ)”ادبی تخلیق کی قرات جس قدر عمدگی سے کی جائے اس کی تفہیم میں اسی قدر آسانی ہوتی ہے۔ جب آپ کوئی متن پڑھ رہے ہوتے ہیں تو دراصل وہ متن بھی آپ کو پڑھ رہا ہوتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ معیاری کلاسیکی ادب کی قرا ¿ت اور تشریح و تعبیر کے لیے ”بازگشت“ آن لائن ادبی فورم کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس فورم کے سرپرست اورمنتظمین کے لیے میری دعائیں اور نیک تمنائیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ یہ فورم اپنے مقاصد کی تکمیل میں کامیابی حاصل کرے گا۔“ ان خیالات کا اظہار پروفیسر شمیم حنفی، ممتاز ادیب، نقاد، دانشور اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمیریٹس نے’ گوگل میٹ‘ پرمنعقدہ ”بازگشت“ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔واضح رہے کہ عصر حاضر کے مشہورو معروف افسانہ نگار پروفیسر بیگ احساس کی سر پرستی میںصالح اور معیاری ادب کی قرات، تفہیم، تعبیر، ترویج اور فروغ کے لیے ”بازگشت“ آن لائن ادبی فورم کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس کی جانب سے اردو کے کلاسیکی ذخیرے سے ہر ہفتے شنبہ کی رات آٹھ بجے کسی اہم تخلیق یا تحریرکی پیش کش اور اس کے بعد اس کے فنی محاسن و معائب پر گفتگو کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
 افتتاحی اجلاس میں مشہور براڈکاسٹر محترمہ افشاں جبیں فرشوری نے عصمت چغتائی کا شاہکار افسانہ "چوتھی کا جوڑا" نہایت موثر انداز میںپیش کیا۔اس موقعے پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر محمد نسیم الدین فریس، ڈین اسکول براے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات اور صدر شعبہ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے ”بازگشت“ کے آغاز پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ پروفیسر شمیم حنفی صاحب جیسی عبقری اور قاموسی شخصیت کے ذریعے اس ادبی فورم کا افتتاح فال نیک ہے۔ اس فورم کی کامیابی کی ضمانت اس کے سرپرست پروفیسر بیگ احساس کی شخصیت بھی ہے جو حیدرآباد کی شناخت اور حیدرآبادی تہذیب کے نمائندہ کے طور پر پوری اردو دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ انھوںنے ”چوتھی کا جوڑا “ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ افسانہ اپنے ٹریٹمنٹ اور زبان کے چٹخارے کی وجہ سے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ کبریٰ کی ماں سے جو غلطی ہوتی ہے اس کی وجہ سے اس میں المیہ تاثر پیدا ہوا ہے۔ دراصل افسانے یا ناول میں کرداروں کی غلطیوں کی وجہ سے ہی المیہ وجود میں آتا ہے۔ اس افسانے میں حمیدہ کا کردار بہت توانا ہے اور وہ سماجی جبر اور ہر غلط بات کے لیے نہ صرف کڑھتی ہے بلکہ اس کے خلاف بغاوت کا جذبہ بھی رکھتی ہے۔ ڈاکٹر محمد کاظم، اسوسی ایٹ پروفیسر ، شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی نے افسانے کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اس کے محاسن و معائب کا احاطہ کیا اور بتایا کہ کبریٰ اور راحت کے کرداروں کو عصمت بھرپور انداز میں پیش نہیں کر پائی ہیں۔ اس افسانے کے پلاٹ میں بھی سقم ہے۔ڈاکٹر مسرت جہاں، اسو سی ایٹ پروفیسر، شعبہ ¿ اردو ، مانو نے کہا کہ عصمت چغتائی نے اس افسانے میںمغربی یو پی کی عورتوں کی مخصوص زبان، محاوروں، کہاوتوں اور کوسوں کو بہت سلیقے سے برتا ہے اور زبان کے دلکش استعمال کے ذریعے اسے شاہکار بنا دیا ہے ۔یہ افسانہ کبریٰ کی ماں کا المیہ بن گیا ہے۔
پروفیسر بیگ احساس طبیعت کی ناسازی کے باعث اظہارِ خیال نہیں کرسکے البتہ وہ شروع سے آخر تک جلسے میں موجود رہے۔ ”بازگشت“ کی انتظامیہ کمیٹی کی رکن ڈاکٹر گلِ رعنا،استاد شعبہ اردو، تلنگانہ یونیورسٹی، نظام آباد نے شرکا کا خیر مقدم کیا اور جلسے کی بہترین نظامت کی۔ ڈاکٹر فیروز عالم ،استاد شعبہ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآبادنے ”بازگشت“ کے اغراض و مقاصد اور اصول و ضوابط بیان کیے اور ڈاکٹر حمیرہ سعید پرنسپل، گورنمنٹ ڈگری کالج فار ویمن، سنگا ریڈی نے مہمانوں کا تعارف کرایااور اظہار تشکرکیا ۔
اس موقعے پر ملک اور بیرون ملک سے شائقین ادب اور طلبا کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جن میں پروفیسر رحمت یوسف زئی، پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی، پروفیسر محمد ظفرالدین،پروفیسر حبیب نثار، جناب ملکیت سنگھ مچھانا، ڈاکٹر قمر سلیم،ڈاکٹر محمود کاظمی، جناب عبدالحق،ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، ڈاکٹر مشرف علی، ڈاکٹر ریشماں پروین، ڈاکٹر احمد طارق، ڈاکٹر بی بی رضا خاتون، ڈاکٹر الطاف انجم، ڈاکٹر اسلم فاروقی، جناب غوث ارسلان، جناب ظہیر انصاری، جناب دانش ماجد،ڈاکٹر جرار احمد،ڈاکٹر زبیر احمد، جناب حبیب احمد وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی