ہندوستان کے عدلیہ وانتظامی شعبے سے اردوزبان کاقدیم رشتہ ہے:پروفیسر شاہد اختر

 



قانون کے طلباءاور پولیس محکمے سے وابستہ افراد کوقومی کونسل اردو سکھائے گی:ڈاکٹر شیخ عقیل احمد


نئی دہلی:ہندوستان کے عدالتی و انتظامی شعبے میںاردو زبان کا استعمال سیکڑوں برسوں سے ہورہاہے اور آج کے دور میں بھی عدالتی کارروائیوں میں بے شمار اردو الفاظ استعمال ہورہے ہیں۔یہ بات قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے وائس چیئر مین پروفیسر شاہد اختر نے ’ہندوستان کے قانونی اور انتظامی نظام میں اردو کا رول‘کے عنوان سے منعقدہ آن لائن مذاکرے میں اپنے صدارتی خطاب کے دوران کہی۔قبل ازاں پروگرام کے آغاز میں کونسل کے ڈائریکٹر شیخ عقیل احمد نے تمام مہمانوں کا استقبال کیا اور موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ عدالتوں میں اردو زبان ایک زمانے سے رائج ہے، مگر موجودہ دور میں اس حوالے سے کچھ دشواریاں سامنے آرہی ہیں اورانہی سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کرنے کے مقصد سے یہ مذاکرہ منعقد کیاگیا ہے۔انھوں نے دہلی پولیس کے ذریعے ہائی کورٹ میں دی گئی ایک عرضی کا حوالہ دیا گیا تھاجس میں کہاگیا تھا کہ آج بھی تھانے میں اردو کے بہت سے الفاظ و اصطلاحات رائج ہیں جنھیں ہمارے لیے سمجھنا مشکل ہے لہٰذا ان کے استعمال پر روک لگائی جائے۔شیخ عقیل احمد نے کہاکہ چوںکہ یہ الفاظ سیکڑوں برس سے عدلیہ و پولیس محکمہ میں مستعمل ہیںاور یہ ہماری مشترکہ تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں لہذا انھیں ختم کرنے کے بجائے یہ کیا جاسکتا ہے کہ متعلقہ محکموں تک ایسی کتابیں پہنچائی جائیں جن میں ان الفاظ کے تلفظ کی تفصیلات کے ساتھ ان کے ہندی و انگریزی معانی بھی درج ہوں۔انھوں نے وائس چیئر مین کی تائید کرتے ہوئے کونسل کی جانب سے ایسی کتابوں کی اشاعت کی یقین دہانی کرائی۔ اس آن لائن مذاکرے میں پٹنہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اقبال احمد انصاری،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی فیکلٹی آف لا کے سابق ڈین پروفیسر محمد شبیر،آئی اے ایس سراج حسین،سپریم کورٹ کے وکیل سدھارتھ لوتھرا،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر ظفر نعمانی اوردہلی یونیورسٹی فیکلٹی آف لا کے اسسٹنٹ پروفیسر پرکشت سروہی نے مہمان مقررین کی حیثیت سے شرکت کی ۔ مقررین نے اپنی تقریروں میںکہاکہ ہندوستان کا عدالتی نظام سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے علاوہ ضلعی عدالتوں تک پھیلا ہوا ہے اوران میں انگریزی کے علاوہ دیگر مقامی زبانیں بھی استعمال ہوتی ہیںجن میں اردو بھی شامل ہے۔مقررین نے یہ بھی کہاکہ ججز اور وکلا ایسی زبان استعمال کرتے ہیںجو آسانی سے سمجھی جاسکے اور یہی وجہ ہے کہ اردو کے الفاظ بھی ہندوستانی عدالتی سسٹم میں ایک زمانے سے رائج ہیں۔ مقررین نے کہا کہ اردو زبان کو مختلف شعبوں میں مسائل کا اس لیے سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اسے ایک مذہب سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے،حالاں کہ یہ حقیقت کے برخلاف ہے،اردو شروع سے ہی ہندوستان کے ثقافتی تنوع اور اشتراک کی نمائندگی کرتی رہی ہے اور یہ زبان پورے ملک میں سمجھی اور بولی جاتی ہے۔انھوں نے دوباتوں پر خصوصی توجہ دلائی،ایک تو یہ کہ ملک بھر کی مختلف یونیورسٹیز میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کی اردو تعلیم کا نظم کیا جائے اور دوسری یہ کہ قانون کے نصاب اور قانونی اصطلاحات پر مشتمل اہم کتابوں کی اشاعت کا اہتمام کیا جائے۔ پروگرام کی نظامت جامعہ ملیہ اسلامیہ میں فیکلٹی آف لاءکی سابق ڈین اور قومی اردوکونسل کے لیگل اسٹڈیز پینل کی چیئر پرسن پروفیسر نزہت پروین خان نے بحسن و خوبی انجام دی۔اخیر میں ڈاکٹر فیضان الرحمن(اسسٹنٹ پروفیسر،فیکلٹی آف لائ،جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے شکریے کی رسم اداکی۔اس آن لائن مذاکرے میں کونسل سے ڈاکٹر کلیم اللہ(ریسرچ آفیسر)،ڈاکٹر اجمل سعید(اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر)،فیاض احمد،نوشاد منظر کے علاوہ شعبہ ¿ قانون کے بہت سے اساتذہ، طلبہ و اسکالرز شریک رہے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی