لکھنوی تہذیب وثقافت کی مثالی شخصیت نہ رہی : مولانا خالد رشید



عرفان احمد علیگ کی وفات بڑاحادثہ
لکھنو ¿۔ مولانا خالد رشید فرنگی محلی امام عیدگاہ لکھنو ¿ نے اپنے تعزیتی بیان میں اسلامک سنٹر آف انڈیا کے رکن رضوان احمد کے بڑے بھائی عرفان احمد علیگ کی وفات پر گہرے رنج وغم کااظہار کیا۔ انہوںنے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ا ن کی جیسی ادبی شخصیت کی رحلت ہم سب کے لیے بڑاحادثہ ہے۔
مولانا نے کہا کہ مرحوم عرفان احمد شہر نگاراں کی ادبی، تہذیبی اور ثقافتی محفلوں کی جان تھے۔ ان کو شعر وادب اور صحافت وتاریخ سے گہرا شغف تھا۔ ان موضوعات پر ان کی تحریریں برابر شایع ہوا کرتی تھیں اور لوگ بڑی دل چسپی سے ان کو پڑھا کرتے تھے۔ مرحوم خوش گفتار، خوش لباس، خوش اطوار، بااخلاق، وضع دار، احباب نواز، مخلص اور ایک اچھے انسان تھے۔
مولانا فرنگی محلی نے کہا کہ مرحوم کے والد کا نام شیخ مقبول احمد تھا۔ مولانا نے کہا کہ عرفان احمد کی پیدائش ۳۵۹۱ئ ¾ میں اپنے آبائی مکان مقبول منزل بھدیواںلکھنو ¿ میں ہوئی۔ابتدائی دینی تعلیم مدرسہ عالیہ فرقانیہ،چوک میںہوئی۔ اس کے بعد حسین آباد انٹر کالج میں تعلیم حاصل کی پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں داخل ہوئے۔ یونی ورسٹی میں وہ علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ بہ سلسلہ معاش طائف ،سعودی عرب گئے جہاں لپٹن ٹی کمپنی کے منیجر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں۔ طائف میں طویل مدت گزارنے کے بعد وہ اپنے شہر واپس آگئے اور یہاں کے علمی وتعلیمی اداروں سے رابطہ رکھا۔ شہر کی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔ مرحوم علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن لکھنو ¿ کے اعزازی سکریٹری بھی رہے اور اس کی کاروان ادب مہم کے کنوینر بھی تھے۔ انہوں نے ”باتیں علی گڑھ کی“ کے عنوان سے چند ماہ پہلے یوٹیوب پر اپنی یادوں پر مشتمل ایک سلسلہ بھی شروع کیا جس کی ۹۱ قسطیں آچکی ہیں۔ یہ سلسلہ علیگ برادری اور دیگر ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہے۔




مولانانے کہا کہ مرحوم کے پس ماندگان میں بیوہ، تین صاحب زادگان، تین بھائی رفیع احمد، ڈاکٹر فصیح احمد، رضوان احمداور دو بہنیں ہیں۔ مولانا نے مرحوم کے لیے دعائے مغفرت اور پس ماندگان کے صبر جمیل کی دعائیں کیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی