راحت کی شاعری بے باکانہ اورمصلحت پسندی سے پاک تھی:حسن کمال



ہندی اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی،سدریٰ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی ومسیحااردو سوسائٹی کے زیرانتظام ویبنار منعقد
 نئی دہلی،23اگست , ڈاکٹر راحت اندوری اردو غزل کی تہذیب کے پاس دار تھے ۔ ہماری غزلیہ روایت میں محبت،احتجاج اور مذہب ِ انسان کے موضوعات کی ہمیشہ اہمیت رہی ہے ۔مذکورہ خیالات کااظہار حسن کمال(ممبئی) نے ہندی اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی،سدریٰ ایجوکیشنل اینڈویلفیئر سوسائٹی ومسیحا اردوسوسائٹی کے زیر اہتمام منعقدآن لائن پروگرام ’راحت اندوری :فن اورشخصیت‘ میں صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے مزیدکہاکہ راحت کی ابتدائی شاعری میں رومانی اثرات ضرور پائے جاتے ہیں مگر گزرتے وقت کے ساتھ انھوں نے اپنے لہجے میں انقلاب واحتجاج اور مذہب انسان کے موضوعات کو شامل کرلیا۔انھوں نے کہا کہ انسانی تقاضوں سے ان کی شاعری کبھی منحرف نہیں ہوئی اورانھوں نے کبھی بھی مصلحت پسندی کے کشکول میں اپنی شاعری پیش نہیں کی۔
 ہندی اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی کے جنرل سیکریٹری اورویبنار کے کنوینراطہر نبی نے افتتای کلمات ادا کرتے ہوئے کہاراحت کی شاعری مایوسی کے اندھیرے میں امید کی کرن تھی۔راحت اندوری کی رحلت دنیائے شعروادب کا وہ خسارہ ہے جس کا پُر ہونا ناممکن نہیں تومشکل ضرور ہے۔صرف ہندوستان کے اردو شائقین کا ہی نہیں بلکہ پوری اردودنیاکانقصان ہوا ہے۔ان کا لہجہ منفرد اورآوازمیں کشش تھی۔راحت نے اپنی شاعری کے ذریعہ سوتی ہوئی قوم کو بیدار کررہے تھے اوران میں سیاسی اورسماجی شعور پیدا کررہے تھے۔پروگرام کی نظامت کے فرائض معروف شاعر حسن کاظمی نے راحت اندوری کے فن اور شخصےت پرخوبصورت کلمات ادا کرتے ہوئے انجام دئے ۔ساتھ ہی انہوں نے مہمانوں کا تعارف اوراستقبال پرجوش انداز میں کیا۔ پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر مسیح الدین خان،ضیاءاللہ صدیقی،ڈاکٹر یاسر جمال نے دل کی گہرائیوں سے مہمانوں کا شکریہ اداکیا
 مہمان خصوصی محمدصبیح بخاری(سرپرست،بزم صدف،دوحہ قطر) نے کہاکہ راحت کی آواز پر جہاں ایوانِ حکومت میں بیٹھے لوگ غور وفکر کرتے ہیں وہیں وہ اپنی شاعری کے ذریعے کڑوروں دلوں پر حکومت کرتے تھے ۔ ایک فن کار لیے یہ اعجاز کی بات ہے ۔انہوں نے راحت کی دیگر خصوصیات اور ذاتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اندر احترامِ آدمیت اور چھوٹوں سے شفقت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ساتھ ہی انھوں نے کہاکہ ہم راحت اندوری پر ایک عظیم الشان پروگرام ترتیب دیں گے ۔ راحت کی شاعری میں عوامی، مزاحمتی اور رومانی معاملات گھل مل گئے تھے ۔ ساتھ ہی انھوں نے عصری حسیت کو ا پنی شاعری میں شامل رکھا۔ 
 مہمان اعزازی ڈاکٹراحتشام احمد خان (ہیڈ امریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسٹڈیز)نے کہا کہ راحت صاحب کو اردووالوں کے ساتھ ہندی والے بھی بہت پسند کرتے تھے،وہ ایک فنکار تھے اور اپنی فنکاری کے جوہر سے اسٹیج کو سجادیا کرتے تھے۔ راحت اندوری معاملاتِ زندگی میں انتہائی محتاط تھے اور عشق نبی کا جذبہ بھی ان کے اندر موجزن تھا۔ راحت کی شاعری عصری معاملات سے لبریز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں احتجاج وابال اور مزاحمت کی فضا پائی جاتی ہے ۔


 



 مہمان اعزازی پروفیسر ارتضی کریم نے کہاراحت اندوری اپنی شاعری میں سیاسی ، سماجی اور فکری آزادی کے ہامی تھے ۔ان کی شاعری سنجیدہ طبیعت ، فقیرانہ فطرت،جاہ و جلال ، احتجاج و مزاحمت، طنز،حسن و عشق کا سراپا تصور، رومانی جذبات،زیست و موت کی کشمکش کی حسین امتزاج ہے۔ہجر کی کسک ان کی شاعری کا خاصہ ہے لیکن اس بے کیف حقیقت کا بے جا ماتم ان کے یہاں مشکل سے ملتا ہے۔ وہ ایک معروف اور مقبول عام شاعر تھے تو اس کی سب سے بڑی وجہ ان شعری ادائیگی تھی جس سے وہ معمولی سے معمولی بات بھی نرالے ڈھنگ سے لوگوں تک پہنچادیتے تھے۔
 خصوصی مقررین میںشہاب الدین احمد(دوحہ، قطر) ڈاکٹر زبیر فاروقی (دوبئی) قیصر وجدی(کراچی) عباس تابش(لاہور)۔پروفیسر شافع قدوائی(علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)ڈاکٹر انیس انصاری،جوہر کانپوری، شبینہ ادیب،سردارچرن سنگھ بشر،ڈاکٹر انجم بارہ بنکوی،سنجے مشرا شوق ،ڈاکٹر سلطان شاکر ہاشمی،منیش شکلا،فریاد بہادر ،سہیل کاکوروی، شبنم علی (اجین)،ڈاکٹر احتشام احمد خان ،ڈاکٹر ارشادبیاروی،ضیاءاللہ صدیقی ندوی،ڈاکٹر مسیح الدین خان، ڈاکٹر یاسر جمال ،معراج حیدر،ایس این لال،رفیع احمد وغیرہ نے کہا کہ راحت اندوری ایک درویش صفت شاعر تھے۔انہوں نے شہرتوں اور کامیابیوں کے بدلے کبھی بھی کوئی منصب یا عہدہ قبول نہیں کیا۔ملک کی سیاسی ہلچل پر ہمیشہ انہوں نے سخت ترین تنقید کی۔انہوں نے اپنے پچاس سالہ شعری سفر میں کئی نشیب وفراز کا سامنا کیا لیکن ان کے قلندرانہ رویے میں کبھی کسی طرح کی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔ راحت اندوری نے مشاعرے کا معیار برقرار رکھتے ہوئے اردو شاعری کوعام فہم اور سادہ لفظوں میں عوام تک پہنچایا۔یہی وجہ ہے کہ چائے خانوں سے لے کر اسمبلی تک میں ان کے کئی مشہور شعر پڑھے جاتے ہیں۔ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ دانشور طبقے کے لوگ بھی ان کی شاعری کے مداحوں میں شامل ہیں۔ان کا مشاہدہ عوام کے کافی قریب تھا یہی وجہ ہے کہ ہر خاص و عام کو ان کی شاعری میں اپے جذبات کی ترجمانی محسوس ہوتی ہے۔
 پروگرام کے کنوینر اطہر نبی ایڈوکیٹ ، اورکوکنوینرڈاکٹر مسیح الدین خان،کوآرڈینٹرضیاءاللہ صدیقی اورکوکوآرڈینٹر ڈاکٹریاسر جمال رہے۔مذکورہ اطلاع پروگرام کے کنوینراطہرنبی ایڈوکیٹ اور کوآرڈینٹر ضیاءاللہ صدیقی ندوی نے میڈیا کو دی ہے۔


 


ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی