فانی فی اﷲ ، عاشق رسول اﷲ سے ہزاروں افراد شفا یاب ہوئے

 



روحانی شفا خانہ میںمولانا کلیم اﷲ ندوی صدیقی کے یوم وفات پر نشست کا انعقاد
لکھنو ¿۔ہمارے روحانی علم کے مرشد ومربی ، ہزاروں عاملوں کے رہ نما فانی فی اﷲ ،عاشق رسول اﷲ مولانا کلیم اﷲ صدیقی ندوی ؒخداوند قدوس کے ان خوش نصیب بندوں میں سے ہیں جن سے خدائے واحد نے مختلف جہتوں سے مخلوق کو نفع پہنچایا، مخلوق کی خدمت وراحت رسانی آپؒ کے خصوصی اوصاف میں سے تھے۔ خداتعالیٰ کی شان کہ حضرت اقدس کے اخلاص وللٰہیت کی برکت سے خدا تعالیٰ نے آپ کے دیے ہوئے تعویذات اور بتلائے ہوئے عملیات میںبڑی تاثیر رکھی تھی۔ سینکڑوں نہیںہزاروں افراد آپ کے مجربات سے شفایاب اور بامراد ہوئے۔
ان خیالات کااظہارخدمت خلق کے لیے مشہور بابا محمد شریف نے اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ وہ آج اپنے روحانی علم کے ماہر پیر ومرشد مولانا کلیم اﷲ صدیقی ندوی ؒکے یوم وفات کے موقع پر ان کے قائم کردہ روحانی شفا ءخانہ واقع حسین آباد لکھنو ¿میں ایک نشست کو خطاب کررہے تھے۔یہ نشست پیرومرشد مولانا کلیم اﷲ صدیقی ندوی کی دوسری برسی کی مناسبت سے منعقد کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ حضرت کو شروع میں تعویذ گنڈہ کے کام سے بہت پرہیز تھا لیکن جب حضرت کو تجربہ ہوا کہ جاہل قسم کے لوگ عملیات کے ذریعہ عوام المسلمین کا مالی وجسمانی استحصال کرتے ہیں تو حضرت اقدس نے عملیات کو اختیار کیا اور بلا معاوضہ خدمت خلق کے طور پر اس کو شروع کردیا۔اس سے بڑا فائدہ یہ ہو اکہ امت کا ایک بڑا طبقہ اہل حق سے جڑا اور اہل حاجت کو بڑا نفع پہنچا۔
سماجی خادم رفیق احمدنے کہا کہ حضرت اقدسؒ کی غیر ت وحمیت کا یہ عالم تھاکہ ۰۷۹۱ئ میں ان کے بڑے بھائی مرحوم قاری ہدایت اﷲصدیقی جو ایک دینی مدرسہ کے ناظم اعلیٰ وذمہ دار تھے اور پیر ومرشد بھی اسی مدرسہ میں ۷۶۹۱ئ سے تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔ مدرسہ کے بانی سے کچھ ناگفتہ حالات کی بنا پر جب ان کے بڑے بھائی مرحوم قاری ہدایت اﷲصدیقی نے استعفیٰ دے دیا تو پیر ومرشد سے بھی رہا نہیں گیا اس لیے کہ یہ ان کی عزت ووقار کی بات تھی تو انہوں نے بھی اس رئیس تاجرکی ملازمت کو اپنے پیروں تلے روند کر اپنے بے قرار قلب کو سکون پہنچایا ۔
نشست کو خطاب کرتے ہوئے سابق کارپوریٹر راجہ رام نے کہا کہ پیر ومرشد کی شخصیت ان لوگوں میں سے تھی جن کی نظیر یں ہر دور میں گنی چنی ہو اکرتی ہیں، خدائے واحد نے انہیں علم وفضل کی گہرائی کے ساتھ انابت وتقوی اور اتباع شریعت وسنت کا وہ اہتمام عطا فرمایا تھا جو اس پر فتن دور میںکہیں خال خال ہی نظر آتاہے۔ وہ صرف ایک ماہر روحانی عالم ہی نہیں تھے، ان کی صحبت کے فیض سے ان میں کسی قسم کی عجب یاپندار کا کوئی شائبہ نہ تھا۔ وہ ہمیشہ سے متواضع ، منکسر المزاج اور خوش اخلاق انسان تھے جن سے مل کر انسان کو دل میں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ یہ مرد درویش سالہا سال سے اخلاص اور میانہ روی کے ساتھ خدمت خلق کے لیے دل وجان سے حاضر رہتا تھا۔ ایسے شخص کو نشانہ ¿ ستم بناکر ظالموں نے ان کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کیا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ ہزار مرتبہ سوچنے کے بعد بھی اس کا جواب ملنا مشکل ہے۔
 محمد سرکار نے کہا کہ آج کی دنیا کا تھکا ماندا انسان سکون کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ اس کی بےکسی سے فائدہ اٹھاکر بہت سے شاطر مزاج لوگ اس کے بچے کچے دین وایمان کا سودا بھی کرلیتے ہیں اور اس کو نیند کی ایک گولی دے کر اس کا سرمایہ بھی لوٹ لیتے ہیں۔ اس طرح جعل سازوں اور جھوٹے عاملوں کی ایسی گرم بازاری ہوئی کہ ایسے لوگ بھی اس بازار میں پہنچ گئے جن کو اس کی طرف نظر اٹھاکر نہیںدیکھنا چاہیے۔
ایک بار حضرت اقدس ؒ سے ان کے ایک شاگرد خاص نے عرض کیا کہ اگر آپ اجازت دےں تو جولوگ مجھ سے تعویذ مانگتے ہیں، دے دیا کروں ؟ تو حضرت ؒ نے جواب دیا تعویذ دے دیا کرو۔ مگر اس سے آمدنی حاصل نہ کرنا، اس کو کمائی کا ذریعہ نہ بنایا ۔ خداوند قدوس اس کا بہتر اجر عطا فرمائے گا۔
محمد ابراہیم نے کہا کہ ۴۲اگست ۷۱۰۲ئ کی رت میں ان کی آخری منزل آپہنچی اور وہ دنیا کی اس جدو جہد کو خیر آباد کہہ کر اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے اپنے خاص فضل وکرم سے ان کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے ، ان کو جوار رحمت میں درجات عالیہ سے نوازے۔ 
اس موقع پرغریبوں و پریشان کن لوگوں کی مدد کی گئی اور پھل وغیرہ بھی تقسیم کیے گئے۔
اس موقع پر بڑی تعداد میںمعتقدین ومتوسلین اور اہل محلہ موجود تھے۔
 


ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی