دارا شکوہ مرکز تفاہم بین المذاہب و ڈائیلاگ کی جانب سے دو روزہ بین الاقوامی ویبینار کا اہتمام

 



علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے دارا شکوہ مرکز تفاہم بین المذاہب و ڈائیلاگ کی جانب سے ایک دوروزہ بین الاقوامی ویبینار کا اہتمام بعنوان ”بحران کا سامنا کرنے میں عقید ہ کا کردار: کووِڈ کے بعد کی دنیا کے لئے مذہب کی افادیت“ کیا گیا۔
 ویبینار کے افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ ایک دوسرے کے عقیدہ اور مذہب کا احترام کسی بھی مہذب سماج کی شناخت ہوتی ہے۔ پرامن بقائے باہم کے لئے ڈائیلاگ اور مذاکرہ ضروری ہے۔مسلکی اور عقیدہ کے تعصب سے سماج صحت مند نہیں رہ سکتا اور نہ ترقی کرسکتا ہے ، اس لئے سبھی مذاہب کے لوگوں کو سماج میں اخوت و بھائی چارہ کے لئے آگے آنا ہوگا۔ 
 پروفیسر منصور نے کہاکہ کووِڈ 19 نے پوری دنیا کو تبدیل کردیا ہے اور گھریلو و خاندانی ربط و تعلق کا لوگوں کو احساس ہورہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بحران کے اس وقت میں رواداری اور بھائی چارہ کے لئے باہم مل کر کوشش کرنی چاہئے۔ 
 آرٹ آف لیونگ کے بانی مشہور روحانی رہنما روی شنکر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ بحران کے وقت دماغی صحت کا مسئلہ ابھر کر سامنے آتا ہے جس کا مشاہدہ پوری دنیا کررہی ہے۔ انھوں نے کہاکہ مذہب اور اعتقاد انسان کے اندر سکون اور امید پیدا کرتا ہے۔ اس سے ناامیدی کو دور بھگایا جاسکتا ہے۔ بحران کے وقت انسان یا تو ناامید ہوجاتا ہے یا بہت جارح بن جاتا ہے۔ ان دونوں جذباتی کیفیات میں روحانی اور مذہبی علم مددگار ثابت ہوتا ہے۔ انھوں نے کہاکہ عبادات کے طریقے مختلف ہوسکتے ہیں مگر مالک اور آقا صرف ایک ہے۔ روی شنکر نے کہاکہ وید اور قرآن دونوں میں کہا گیا ہے کہ کسی ایک انسان کو تکلیف پہنچانا پوری انسانیت کو تکلیف پہنچانے کے برابر ہے۔ انھوں نے مزید کہاکہ تفاہم بین المذاہب کےلئے کام کرنا سبھی کی ذمہ داری ہے۔ 
 ایران کے نامور مفکر اور ایرانی پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر ڈاکٹر حدّاد عادل نے اپنے خطاب میں کہاکہ ہندوستان اور ایران دو قدیم تہذیبیں ہیں جن کی شاندار تاریخ رہی ہے۔ انھوں نے کہاکہ” علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے مجھے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی جو میرے لئے بہت قیمتی ہے“۔ ڈاکٹر حداد نے کہاکہ دنیا میں اس وقت تکالیف کا انبار ہے ۔ سائنس اور ٹکنالوجی میں ترقی کے باوجود لڑائیاں اور انسانی مصائب کم نہیں ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں صبر اور ہمت پیدا کرنے کےلئے روحانی طاقت کا ہونا ضروری ہے جو عقیدہ و مذہب ہی فراہم کرسکتا ہے۔ 
 مولانا غلام محمد وستانوی نے اپنے خطاب میں کہاکہ بحران سے نپٹنے کے لئے احادیث اور پیغمبر اسلام کی سنت میں خاطر خواہ رہنمائی کی گئی ہے۔ 
 کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے پدم بھوشن جناب موسیٰ رضا نے کہاکہ سبھی مذاہب ایک ہی پیغام دیتے ہیں ۔ عبادت کے طریقے میں فرق ہے مگر ہمیں اس فرق کا احترام کرنا چاہئے ۔ انھوں نے کہاکہ تحمل کے بجائے تفاہم زیادہ بامعنیٰ اصطلاح ہے اور ہمیں اختلافات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ 
 سنسکرت یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر رمیش پانڈے نے کہاکہ خدا میں یقین ہندوستان کی تہذیب کا حصہ ہے اور ہندوستانی ثقافت میں یہ کہا گیا ہے کہ پوری دنیا ایک کنبہ ہے۔ 
  دارا شکوہ مرکز تفاہم بین المذاہب و ڈائیلاگ کے ڈائرکٹر پروفیسر علی محمد نقوی نے مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ اس ویبینار کا پیغام پوری دنیا تک جائے گا۔ 
 ویبینار کے کوآرڈنیٹر پروفیسر اکبر حسین نے فاضل مقررین کی تقریروں کی تلخیص پیش کرتے ہوئے نفسیاتی زخموں کو مندمل کرنے میں روحانیت کے کردار پر روشنی ڈالی۔ 
 سرسید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہاکہ دارا شکوہ مرکز تفاہم بین المذاہب و ڈائیلاگ، اے ایم یو کا ایک اہم ادارہ ہے ۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر حسین حیدر نے کی۔ 
 ویبینار کے دوسرے سیشن کی صدارت پروفیسر اقبال علی خاں نے کی اور معاون صدر ڈاکٹر محمد ناصر تھے۔ اس سیشن میں ڈاکٹر ظفر محمود، ، ، درگاہ اجمیر شریف کے سجادہ نشیں حاجی سید سلمان چشتی، ڈاکٹر شیخ عقیل احمد (ڈائرکٹر، این سی پی یو ایل)، مسٹر رامش صدیقی اور پروفیسر راجویر نے خطاب کیا۔ 



جدید تر اس سے پرانی