ملت اسلامیہ کی تہذیب و ثقافت، اردو زبان اور طب یونانی


 


 


محمد خالد
خالقِ کائنات اللہ رحمان و رحیم نے ایسا کوئی مرض پیدا نہیں کیا جس کے علاج کی صلاحیت اپنے مخصوص بندوں میں نہ پیدا کی ہو۔ اب سے تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل علاج کے فن کو یونان میں بقراط (377-460 ق م) نے سب سے پہلے پیش کرنے کی شروعات کی۔ اس کے بعد سے آج تک اللہ کے کچھ مخصوص بندے اپنے اپنے طور پر اس فن کی آبیاری کرتے چلے آ رہے ہیں۔ چھٹی صدی عیسوی میں ظہور اسلام کے نتیجے میں عرب کے اندر جو تہذیبی انقلاب آیا اس کے زیر اثر علوم و فنون کی حیرت انگیز ترقی ہوئی۔ علم طب بھی اس انقلاب کی برکتوں سے فیض یاب ہوا۔ خاص طور پر عہد عباسی (1258-750) کو علوم کی ترقی کا سنہرا دور سمجھا جاتا ہے۔ خلیفہ ہارون و مامون کے دور(808-784) میں جب بیت الحکمت کا قیام عمل میں آیا تو اس فن کی ترقی کو جیسے پَر لگ گئے۔ چنانچہ اس ادارہ کے ذریعہ یوحنا بن ماسویہ (857-777) حنین ابن اسحاق (819-809) ثابت ابن قرہ (903-836) یعقوب ابن اسحاق (متوفی 873) اور ہندوستانی وید منکہ الہندی اور کنکہ الہندی جیسے مختلف زبانوں کے ماہرین و مترجمین کی خدمات حاصل کر کے یونانی، عبرانی، سریانی، رومی اور سنسکرت جیسی مختلف زبانوں میں منتشر طبی معلومات کے ذخیرہ کو عربی زبان میں منتقل و محفوظ کر دیا گیا تھا۔ عربوں نے یونانی طب کے عظیم سرمایہ کو عربی زبان میں اکٹھا کرنے پر ہی بس نہیں کیا بلکہ اس فن کی عظمت کو محسوس کرتے ہوئے انسانی خدمت کے جذبے سے اس میں بے شمار اضافے کئے اور ربن طبری (850-770) کی فردوس الحکمت، ابوبکر محمد بن زکریا رازی (923-850) کی 23 جلدوں پر مشتمل الحاوی الکبیر فی الطب، علی ابن عباس مجوسی (994-930) کی کامل الصناعہ، بو علی سینا (1037-980) کی القانون فی الطب جیسی معرکتہ الآراءکتابیں وجود میں آئیں جو آگے چل کر ماڈرن میڈیکل سائنس کی بنیاد کا پتھر ثابت ہوئیں۔ بھارت میں طب یونانی خاص طور پر مغلیہ عہد میں آئی اور تیزی سے پروان چڑھی۔ اس دور میں علمی اور درباری زبان ہونے کی وجہ سے فارسی زبان میں طبی کتابیں لکھی گئیں جن میں حکیم اعظم خاں (1902-1813) کی اکسیر اعظم، محیط اعظم، نیر اعظم وغیرہ اہم مقام رکھتی ہیں۔ اس دور میں دینی اور علمی زبان ہونے کی وجہ سے نیز طب کا اہم ذخیرہ عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے عربی میں بھی طبی کتابیں لکھی گئیں اور پڑھائی جاتی رہی ہیں۔ قدیم ہندوستانی اطباءعام طور پر عربی اور فارسی زبانوں کے ماہر ہوا کرتے تھے مگر جب طب یونانی عوام میں تیزی سے پھیلنے لگی اور عوام الناس میں اس کا دائرہ بڑھا تو پھر اس فن طب یونانی کے سرمائے کو عوامی زبان اردو میں منتقل کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی تو خادمین طب نے یونانی طب کی تقریباً تمام اہم کتابوں کا اردو میں ترجمہ کر دیا۔ جب کہ اصل ماخذ ابھی بھی عربی و فارسی زبانوں میں محفوظ ہے۔ طب یونانی کی کتابوں کا اردو ترجمہ خاص طور پر طبی تعلیمی نصاب کی ضرورت کے تحت کیا گیا چنانچہ مختلف ماہرین نے الگ الگ موضوعات کی ضرورت کے حساب سے القانون فی الطب کو بنیاد بنا کر ترجمے کا کام انجام دیا۔ ان میں بے شمار نام ہیں مگر ان میں حکیم سید غلام حسنین کنتوری اور حکیم کبیر الدین کو خصوصی اہمیت حاصل ہے جنہوں نے طبی نصاب کی اردو کتابیں تیار کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج تمام طبی تعلیم اردو زبان سے وابستہ ہے، طب یونانی کی تمام اصطلاحات و روایات اردو زبان سے اس طرح جڑی ہوئی ہیں کہ اردو سے طب یونانی کو الگ کر کے طب یونانی کو اپنی بنیادوں پر قائم رکھنا ناممکن ہے۔
یونان کے قدیم اطباءکے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھارتی حکماءنے بھی طب یونانی کی خدمات کے ساتھ ہی یہاں کے معاشرتی، تعلیمی معاملات میں اہم کردار ادا کیا اورجنگ آزادی میں بھی پیش پیش رہے۔ ان میں چار خاندانوں کو خصوصی حیثیت حاصل ہے جو کہ خاندان عزیزی (لکھنو ¿) حکیم عبدالعزیز (1911-1855) خاندان شریفی(دہلی) حکیم اجمل خان (1927-1868)، خاندان عثمانی (الہ آباد) حکیم احمد حسین عثمانی (1933-1859) اور ہمدرد دواخانہ کے مشہور حکیم عبدالحمید (1999-1908) کا خاندان شامل ہے۔ ان سب کے علاوہ نہ صرف شمالی بلکہ جنوبی ہند کے تقریباً سبھی اہم مقامات پر اپنے اپنے دور کے اہم علمی گھرانوں میں طب یونانی کو خاص مقام حاصل رہا ہے اور بے شمار ماہر اطباءنے اپنی خدمات سے طب یونانی کا نام روشن کیا ہے۔ یہ اہم شخصیات نہ صرف لوگوں کی صحت کی محافظ تھیں بلکہ ان کے ذریعہ ملت اسلامیہ کی تہذیب اور خاص زبان اردو کو بھی فروغ اور قبولیت کا مقام حاصل ہوا۔
یوں تو انسانی زندگی کے معاملات میں مادری زبان کی بڑی اہمیت ھے مگر خاص طور پر تعلیم اور صحت کے لئے مادری زبان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ مادری زبان کا براہ راست تعلق زبان سے وابستہ تہذیب سے ہوتا ہے اور اسی لئے سماجی ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی مخصوص انسانی گروہ کو نقصان پہنچانے کا آسان طریقہ ہے کہ اس کی مادری زبان کو اس سے الگ کر دیا جائے۔
کچھ عرصہ سے اس طرح کی کوششوں کو محسوس کیا جا رہا ہے کہ طب یونانی اور اردو زبان میں فاصلہ پیدا کر کے طب یونانی کو اس کے ماضی سے منقطع کیا جائے تاکہ اس کے فروغ اور مقبولیت پر لگام لگائی جا سکے۔
بی یو ایم ایس کا نصاب تعلیم اردو زبان میں ہی ہے اور طب یونانی کی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی کم از کم دسویں کلاس تک کی اردو کی اہلیت کا ہونا لازم ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ طب یونانی اور اردو لازم و ملزوم ہیں مگر بی یو ایم ایس کے نصاب کو اردو کی جگہ ہندی میں منتقل کرنے کی بات بھی بار بار کی جاتی رہتی ہے۔ یہ بھی بڑی تشویش کی بات ہے کہ طب یونانی سے وابستہ اداروں میں اردو زبان کو کمزور کرنے کا سلسلہ جاری ہے، خصوصاً سرکاری اداروں میں۔
پورے ملک میں طب یونانی کے نظام کا بڑا حصہ حکومت کے زیر اہتمام ہے جہاں حکومت کی پالیسی اور ہدایات پر عمل کرنا لازمی ہے مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ اردو زبان کا استعمال ممنوع ہو تو پھر طب یونانی کے ذمہ داران کے ذریعہ اردو زبان سے بے اعتنائی کا سبب کیا ہے؟
 مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے ذریعہ وقفہ وقفہ سے عوام الناس کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لئے تحفظاتی مہم چلائی جاتی ہیں جس کے تحت مختلف نوعیت کے عوامی بیداری پروگرام منعقد کرائے جاتے ہیں۔ وزارت آیوش کی جانب سے بھی آیوروید اور یونانی محکموں کے ذریعہ عوامی بیداری پروگرام کا اہتمام کرایا جاتا ہے جس میں خاص طور پر وبائی امراض سے بچنے کے لئے قوت مدافعت کے فروغ اور دیگر امراض پر معلومات فراہم کراءجاتی ہیں۔ طب یونانی کی ان سب کارکردگی کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے مگر اس خوشی کے ساتھ ساتھ یہ دیکھ کر بہت افسوس اور مایوسی کا احساس ہوتا ہے کہ اس طرح کے عوامی بیداری کے طبی پروگراموں کے اشتہارات اور بینر وغیرہ ہندی اور انگریزی زبان میں ہوتے ہیں اور امراض کا نام صرف ہندی زبان میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً مدھو میہہ، پوشن اور چرم روگ وغیرہ۔ طب یونانی کی کسی بھی قسم کی سرگرمی میں اردو کا وجود نہ ہونا افسوس اور تکلیف کا باعث ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری یہ لاپروائی طب یونانی، اس کی تاریخ و روایات کو نقصان پہنچانے کا آغاز ثابت ہو۔
امید ہے کہ مرکزی یونانی کونسل اور دیگر صوبائی طب یونانی کے اداروں کے ذمہ داران، سرکاری اور پرائیویٹ یونانی میڈیکل کالجز اور دیگر طب یونانی کے تجارتی ادارے اس اہم مسئلہ پر توجہ فرمائیں گے اور اپنے ادارے کی ضرورت کے مطابق کسی بھی علاقائی زبان کو استعمال کرنے کے ساتھ ہی طب یونانی کی ثقافتی زبان اردو کو فوقیت دے کر طب یونانی کے وقار میں اضافہ کرنے کا فریضہ انجام دیں گے، کیونکہ بقول علامہ اقبال :
”قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ھے موقوف“



جدید تر اس سے پرانی