پطرس بخاری اردو طنزومزاح کا درخشاں ستارہ -  پروفیسربیگ احساس


 

بازگشت“ کے آٹھویں اجلاس میں پروفیسر بیگ احساس، پروفیسر نسیم الدین فریس، ڈاکٹر عباس متقی، منور علی مختصر اور دیگر کی مخاطبت

حیدرآباد، 27/ ستمبر (پریس نوٹ) ”اردو طنزو مزاح کی تاریخ میں پطرس بخاری کی حیثیت درخشاں ستارے کی ہے۔مابعد جدید تنقید کا تصور ہے کہ مصنف کی موت ہوجاتی ہے لیکن تخلیق وقت کے محور سے آگے نکل جاتی ہے۔ پطرس کا مضمون ”کتے“ اس کی بہترین مثال ہے۔“ ان خیالات کا اظہار ممتاز افسانہ نگاراور بازگشت آن لائن ادبی فورم کے صدرپروفیسربیگ احساس نے ”بازگشت“ آن لائن ادبی فورم کی جانب سے پطرس بخاری کے انشائیے ”کُتّے“ کی پیش کش اور تنقیدی گفتگو پر مبنی گوگل میٹ پر منعقدہ پروگرام میں صدارتی خطاب کے دوران کیا۔انھوں نے پطرس کی انشائیہ نگاری کی نمایاں خصوصیات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پطرس کے مضامین ملک کی تقسیم سے قبل لکھے گئے لیکن آج تک ان پر زمانے کی گرد نہیں پڑی۔کتے اور انسان کا بہت پرانا رشتہ ہے۔ ’اردو ادب میں ’باغ و بہار“ میں خواجہ سگ پرست کا قصہ اور سرسید کے مضمون’بحث و تکرار‘ میں کتے کا ذکر ملتا ہے۔لیکن کتے پر پہلا بھرپور مضمون پطرس نے ہی لکھا۔خوش طبعی، شوخی اور بے تکلفی پطرس کی مزاح نگاری کی اہم خوبیاں ہیں۔ طنز کی کاٹ ان کے مزاح میں شامل ہوتی ہے۔کتے کی نفسیات سے بھی انھوں نے بھرپور واقفیت کا ثبوت دیا ہے۔ انھوں نے محاورے اور اشعار میں تحریف سے بھی کام لیا ہے۔اس مضمون میں ہندوستانی تہذیب کی رواداری اور دل شکنی سے گریز کی عکاسی بھی کی گئی ہے۔جب تک کتے زندہ ہیں یہ مضمون بھی زندہ رہے گا۔

اس اجلاس میں مشہور مزاح نگار ڈاکٹر عباس متقی نے مہمان خصوصی کے طور پرشرکت کی۔ انھوں نے کہا کہ اس مضمون سے پطرس بخاری کو بطور طنزومزاح نگار شہرت دوام حاصل ہوئی۔ انھوں نے بازگشت کے ذمہ داران کو مبارک باد دی کہ اس پرآشوب دور میں ادب کی آبیاری میں مصروف ہیں۔اس سے قبل معروف مزاحیہ فنکار و شاعرجناب منور علی مختصرنے نہایت دل کش انداز میں انشائیہ ”کتے“ پیش کیا۔تمام حاضرین نے ان کے انداز پیش کش کی بھرپور ستائش کی۔ پروفیسر نسیم الدین فریس، ڈین ایس ایل ایل اینڈآئی، مانو نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ درجے کا مزاح نگار اظہار کے مختلف پیکروں اورصنائع و بدائع سے کام لے کر مزاح پیدا کرتا ہے۔پطرس نے ”کتے“ میں بلیغ تلمیحات استعمال کی ہیں۔ انھوں نے قوم پرستی، مغرب زدگی، سماجی تضادات پر گہرا طنز کیا ہے۔انھوں نے شائستہ مزاح لکھنے کا سلیقہ سکھایا۔اردو کے تین مزاح نگاروں کی فہرست بھی بنائی جائے تو اس میں ایک نام پطرس کا ہوگا۔انھوں نے طلبا اور ریسرچ اسکالرز کو ان پروگراموں سے بھرپور استفادہ کرنے کی تلقین کی۔ ڈاکٹر احمدخاں، مانو،ڈاکٹر مشرف علی، بی ایچ یو اور ڈاکٹر اسلم فاروقی، حیدرآباد نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔

پروگرام کے کنوینر ڈاکٹر فیروز عالم نے پطرس بخاری کی حیات و خدمات پر مختصر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ پطرس کی ولادت یکم اکتوبر 1898کو ہوئی۔ انھوں نے1912 میں میٹرک اور 1915 میں انٹرمیڈیٹ پاس کیا۔ 1917میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کیا۔1919میں انھیں کالج کے رسالے ”راوی“کا مدیر مقرر کیا گیا۔ ان کا مشہور زمانہ مضمون ”کتے“ اسی میں شائع ہوا۔ انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں استاداور بعد میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔وہ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائرکٹر جنرل اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندہ رہے۔ان کی وفات 15 دسمبر 1958کو نیویارک میں ہوئی۔ مجلسِ منتظمہ کی رکن ڈاکٹرحمیرہ سعید نے جلسے کی بہترین نظامت کی۔ انھوں نے ابتدا میں ”بازگشت“ آن لائن ادبی فورم کا تعارف پیش کیا اور بتایا کہ معیاری کلاسیکی فن پاروں کی قرأت، تفہیم اور تعبیر ہمارا بنیادی مقصد ہے۔یہ نئی نسل میں ادب کا ذوق پیدا کرنے اوراسے اردو کے ادبی سرمائے کی قدر و قیمت سے آشنا کرنے کے لیے پابندِ عہد ہے۔

انتظامیہ کمیٹی کی رکن ڈاکٹر گلِ رعنا نے ڈاکٹر عباس متقی اور جناب منور علی مختصر کا تعارف کرایا اورپروگرام کے آخر میں اظہارِ تشکر کیا۔اس اجلاس میں ملک و بیرونِ ملک کے شائقین ادب، اساتذہ اور طلبا و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان میں پروفیسر حبیب نثار، صدر شعبہئ اردو، حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی،ڈاکٹر محمد قمر سلیم (ممبئی) ڈاکٹر غوث ارسلان (ریاض، سعودی عرب)ڈاکٹر محمد عبدالحق(امریکہ) جناب ملکیت سنگھ مچھانا(چنڈی گڑھ)ڈاکٹر محمد کاظم(دہلی)ڈاکٹر مشرف علی(بنارس)ڈاکٹر ریشماں پروین(لکھنئو)ڈاکٹر احمد طارق (بریلی) ڈاکٹر الطاف انجم (سرینگر) ڈاکٹر ہادی سرمدی (پٹنہ)ڈاکٹر عطیہ رئیس(دہلی) محترمہ صائمہ بیگ، ڈاکٹر ناظم علی، ڈاکٹر اسلم فاروقی،ڈاکٹر محبوب خاں اصغر، ڈاکٹرحنا کوثر، محترمہ افشاں حسین(حیدرآباد) محترمہ مہ جبیں شیخ، محترمہ عظمیٰ تسنیم(پونے) جناب نوشاد انجم، ڈاکٹر حنا حسین(بنگلورو) جناب ایم احمد خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔


جدید تر اس سے پرانی