تم کیا گئے کہ شہر کا موسم بدل گیا

 



مولانا سید عباس علی زیدی رسولپوری
 بہت دیر تک یہی سوچتا رہا لکھوں کیا ضبط تحریر میں کیا لاؤں خبر غم سنتے ہی مانو  رنگ و پے میں خون ہی نہ رہا ہو تحریر کے وقت قلم میں روشنائی نہ رہی ہو قلم چلتا بھی تو کیسے چلتا کیونکہ جانے والا تو خود قلم توڑ گیا ہر اعتبار سے اور ہما جہت تحقیق و تحریر کرنے والا چلا گیا اب تو برسوں قلم انہیں کی تحریروں پر تحقیق کریں گے ذہن میں بس یہی شعر گردش کررہا تھا۔
مجھ پہ تحقیق میرے بعد کرے گی دنیا
مجھ کو سمجھیں گے میرے بعد زمانے والے
علامہ صاحب کا تحریری ذوق ہی تھا کہ جس کی وجہ سے مجھ سے ان کا ملاقات کا راستہ ہموار ہوا- یوں تو بہت سے خطباء و ذاکرین سے ملاقاتیں رہتی ہیں لیکن لکھنؤ کی اس ایک ملاقات نے جو برادر بزرگوار سلطانِ خطابت علامہ سید حیدر مہدی زیدی صاحب قبلہ کے توسط سے  ہوئی اور موصوف کی قربت برادر بزرگوار سے ڈھکی چھپی نہیں ہے علامہ ڈاکٹر ضمیر اختر نقوی صاحب سے قربت کی دو بنیادی وجہیں ایک تو علامہ صاحب کا لکھنؤ سے حد درجہ محبت جب کبھی بھی علامہ صاحب سے کال یا ویڈیو کال کی ذریعہ گفتگو ہوتی تو اپنے مخصوص انداز میں معلوم کرتے تھے عباس علی بیٹا آپنے چھولا پوری کھائی کہ نہیں کھائی اور میر انیس و مرزا دبیر کی قبر پر جانے کا ہر مرتبہ معلوم کرتے اور تاکید فرماتے کہ قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے ضرور جایا کرو
لکھنؤ کی کچھ خاص جگہیں یاد کرتے تھے کہ جہاں پر ان کا بچپن گزرا تھا_ بڑا امامباڑا درگاہ حضرت عباس علیہ السلام وغیرہ اور وہ ان جگہوں کو بھول بھی کیسے سکتے تھے کہ جن کو انہوں نے کعبہ عشق کہاتھا
  دوسری وجہ کتابوں کی چاہت جب علامہ صاحب کو لکھنؤ سے کتاب کی ضرورت ہوئی تو مرحوم نے مجھے یاد کیا اور فرمایا کے مجھ الکواکب الدریا چاہیے اور علامہ صاحب ہی نے بتایا کہ غفران مآب کے کتب خانہ سے حاصل ہوسکتی ہے اور مولانا اسیف جائسی صاحب جو اس وقت کتب خانہ کے انچارج تھے اور ان  سے ویڈیوں کیسٹ کی شکل میں حاصل کی جو مولانا علی عباس صاحب (عباس بک ایجنسی) کے ذریعہ بھیجی۔  
کن کن یادوں کا ذکر کروں یہ تو وہ باتیں تھیں کہ جو قلم کی رفتار سے قرطاس کےسینہ پر  تحریر میں ہوگئیں اور نہ جانے کتنی ایسی یادیں ہیں جو ناقابل فراموش ہیں جبکہ موصوف کی شخصیت ہی نا قابل فراموش ہے کیونکہ شخص کے مرنے پر رنج اور شخصیت کے مرنے پر صدمہ ہوتا ہے اور شخصیت ساز کے سانحہ ارتحال پر ناقابل فراموش صدمہ ہوتا ہے اور واقعا میں اس صدمہ کو فراموش نہیں کرسکتا دعا کرتا ہوں کہ خداوندکریم امام مظلوم کربلا کے صدقہ میں علامہ ڈاکٹر ضمیر اختر نقوی صاحب کو جوار اعلی اعلین میں جگہ مرحمت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عنایت فرمائے آمین ۔



جدید تر اس سے پرانی