اے ایم یو کی حصولیابیوں پر مبنی کتاکی اشاعت



علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ارتقائی سفر اور نمایاں حصولیابیوں پر مبنی کتاب ”آکسفورڈ آف دَ ایسٹ“ کی اشاعت
علی گڑھ،: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کے صدی سال کے موقع پر اس عظیم ادارے کے ارتقائی سفر، تاریخ اور نمایاں حصولیابیوں پر روشنی ڈالنے والی ایک اہم کتاب حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔ اے ایم یو کے یوجی سی-ایچ آرڈی سنٹر کے ڈائرکٹر پروفیسر عبدالرحیم قدوائی اور سنٹر فار ویمنس اسٹڈیز، اے ایم یو کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر جوہی گپتا کی مرتب کردہ اس کتاب ”آکسفورڈ آف دَ ایسٹ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی- 1920-2020“ کو وائیوا بُکس، نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔ 
 یہ کتاب سترہ منتخب مضامین پر مشتمل ہے جس کے لکھنے والوں میں پروفیسر ڈیوڈ لیلے ویلڈ (امریکہ)، پروفیسر گیل مِنال (امریکہ)، ڈاکٹر کریمو محمد (پرتگال)، پروفیسر ایلن گنتھر (کناڈا)، ڈاکٹر جیوفری ناش (یوکے) ، چارلس ریمسی(امریکہ)، پروفیسر یاسمین سیکیا (امریکہ)، ڈاکٹر عنبر ایچ عباس (امریکہ)، ڈاکٹر فائزہ عباسی ، ڈاکٹر راحت ابرار، طارق حسن، ڈاکٹر گلفشاں خاں، پروفیسر ایم شافع قدوائی، پروفیسر عبدالرحیم قدوائی، پروفیسر عائشہ منیرہ رشید، ڈاکٹر توصیف اے پیرے اور سارہ اے قدوائی (امریکہ) جیسے نام شامل ہیں۔ 
 کتاب کا مقدمہ اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے اور تعارف پروفیسر عبدالرحیم قدوائی اور ڈاکٹر جوہی گپتا نے تحریر کیا ہے۔ 
 قابل ذکر ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گزشتہ دہائی میں ملک کے ممتاز ترین اداروں میں شمار کی جاتی رہی ہے اور اس ادارے نے مختلف کمزور طبقات کے طلبہ و طالبات کو فیض پہنچایا ہے اور اس طرح ایک عظیم انسانی خدمت انجام دی ہے۔ یونیورسٹی کا اقامتی کردار اسے دیگر یونیورسٹیوں سے منفرد بناتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اقامتی ہالوں میں قیام کرنے والے طلبہ و طالبات زندگی بھر کے لئے ایک دوسرے سے مربوط ہوجاتے ہیں ۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے خصوصاً اس علمی درسگاہ نے تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ہے اور یہاں کے متعدد فرزندوں نے مختلف عہدوں پر فائز ہوکر اور مختلف میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے ملک و قوم کی خدمت کی ہے، جن میں صدر جمہوریہ ہند اور نائب صدرکے عہدوں سمیت ایف این اے، پدم ایوارڈیافتگان، ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتگان اور قانون، عوامی خدمت، علم و تحقیق اور ادب وغیرہ کے ممتاز نام شامل ہیں۔ 
 330صفحات پر مشتمل اس کتاب (آئی ایس بی این: 978-93-90054-23-7 ) میں اے ایم یو کے نامور ابنائے قدیم کی فہرست بھی شامل ہے جسے ڈاکٹر راحت ابرار نے ترتیب دیا ہے۔ 



شعبہ ¿ لسانیات کے ذریعہ ”زبان کی ٹکنالوجی اور اس کا دائرہ کار“ موضوع پر ویب لکچر کا اہتمام
علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ ¿ لسانیات کے زیر اہتمام اے ایم یو صد سالہ تقریبات کے موقع سے ویب لیکچر سریز کی تیسری کڑی بعنوان ”زبان کی ٹکنالوجی اور اس کا دائرہ کار“ کے طور پر ایک ویب ٹاک کا انعقاد عمل میں آیا۔ پروفیسر محمد جہانگیر وارثی، صدر شعبہ ¿ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے مقرر پروفیسر نیلاندری سیکھر داش کا تعارف کرایا، جو کولکاتہ کے ہندوستانی شماریاتی ادارہ کی لسانی ریسرچ یونٹ کے صدر ہیں۔ 
 فاضل مقرر نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ اکیسویں صدی سائنس اور ٹکنالوجی کی صدی ہے اور اس کا کینوس دن بدن پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پچھلے کئی سالوںسے زبان کی ٹکنالوجی نے نہ صرف لسانیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اپنے قدم جمائے ہیںبلکہ علوم کے کی دوسرے میدان مثلاً سائنس، سماجی و انسانی علوم کی شکل میں اس کا دائرہ کار بڑھا ہے۔
 دوران گفتگو انھوں نے ماہر لسانیات اور کمپیوٹر سائنس کو درپیش چیلینجز پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ کیسے باہمی اشتراک وتعاون سے ان مسائل کو بحسن خوبی حل کیا جاسکتا ہے۔
 انھوں نے ٹکنالوجی کے ان پہلوﺅں پر بھی کافی تفصیلی سے روشنی ڈالی جن کی مدد سے زبان کو وقت کے دھارے سے جوڑا جا سکتا ہے۔
 پروفیسر نیلادری سیکھر داش کی سیرحاصل گفتگو کے بعد شعبہ ¿ لسانیات کے صدر پروفیسر ایم جے وارثی نے سامعین کے پیش کردہ سوالات موصوف تک پہنچائے جن کا انھوں نے تشفی بخش جواب دیا۔ 
 اس کامیاب لیکچر کے آخیر میں پروفیسر وارثی نے سامعین کا اور بالخصوص شعبہ کے تمام اساتذہ اسٹاف اور طلبہ کا ان کی موجودگی اور لیکچر میں دلچسپی کے لئے شکریہ ادا کیا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ امید ظاہر کی کہ آئندہ بھی شعبہ ¿ لسانیات اس طرح کے ویب لیکچر کا انعقاد کرتا رہے گا۔


جدید تر اس سے پرانی