شمسی مےنائی ایک انقلابی شاعر

 




                                   سےّد عاصم علی 
جب سے دنےا کا قےام عمل مےں آےا ہے انسان سچائی اور حق کی تلاش مےں سرگرداں رہا ہے ۔اور ےہ سچائی کسی مذہب ذات برادری ا اور زمانے کی محتاج نہیں ہے جو لوگ اپنی غور و فکر اور اپنی فکر و آگہی کی بنےاد پر سچائی تک پہنچنے مےں اُنھونے انسانوں کو راستہ دکھاےا اور اُنھےں جےنے کی راہ دکھائی لےکن اےک بات بہت ہی واضح ہے کہ حق کے ساتھ باطل ہی برسرِ پےکار ہے اور قدم قدم پہ اسکی راہ روکنے کو تےار ہے ۔ اےسے حالت مےں جب کوئی مردِ مجاہد سچائی کا دامن اپنے ہاتھوں سے تھام لےتا ہے تو اُسکی زندگی آرام اور آسائش والی زندگی نہےں رہتی قدم قدم پہ پرےشانےاں ،بے قرارےاں اور بے چےنےاں اُسکا پےچھا نہےں چھوڑتےں ۔ ہمارے اِ ن ادےبوں اور شاعروں نے جنھوں نے ادب کو زندگی جےنے کے راستے کے طور پر پےش کےا اُنھوں نے اپنی شاعری کو نمائش کا ذرےعہ نہےں بناےا نہ اُنھوں نے کسی صلے اور ستائش کی تمنا کی اِن مےں ہمارے دور کے عظےم اِنقلابی شاعر حضرت شمسی مےنائی کا نام سرِ فہرست آتا ہے ۔
شمسی مےنائی نظم گو تھے اور اُنھوں نے اپنی شاعری کو اِسی صنفِ سخن کے ذرےعہ اظہار کا وسےلہ بناےا حالانکہ وہ اےک اچھے غزل گو تھے انسانی زندگی مےں اےک وقت وہ آتاہے جب محبوب کی بے رخی سے تنگ آکر عاشق اِس کے باوجود کہ محبوب اسکی محبت کا اِقرار کرتا ہے محبوب کی محبت سے انکار کر دےتا ہے ۔ہم سمجھتے ہےں کہ اردو شاعری مےں اِ س درجہ کا بانکپن اور خودداری دےکھنے کو بہت کم ملتی ہے 
  آپ کےوں زحمتِ اقرار تک آ پہنچے ہےں 
  اب تو ہم جرئاتِ اِنکار تک آپہنچے ہےں
ادےب اور شاعر اپنے دور کے ترجمان ہوتے ہےں خاص طور سے شاعر اپنے اےک شعر کے ذرےعے اےسی تصوےرکھےنچ دےتا ہے اور واقعہ اور منظرسامنے آ جاتا ہے جو بڑی سے بڑی تحرےروں اور تقرےروں سے ممکن نہےں ہے 
   لختِ دل لختِ جگر بکھرے ہےں آخر کس طرح 
   زندگی خود بن گئی ہے اپنے پےاروں کی تلاش
شمسی مےنائی صاحب کے خالص غزل کے اشعار بھی ہےں جو اُنکی شوخی طبع کی طرف اشارہ کر گئے ہےں 
   طولِ شبِ فراق سے محسوس ہو گےا
   اب زندگی کی بات ترے ساتھ ساتھ ہے 
لےکن جےسا کہ عرض کےا گےا ہے کہ شمسی مےنائی اےک نظم گو انقلابی شاعر ہےں وہ سچائی اور حق گوئی کے پےکر ہےں اور اپنی بات کو پوری طاقت اور باطل کی آنکھوں مےں آنکےں ڈال کر کرنے والے ہےں ۔
اب سوال ےہ پےدا ہوتا ہے کہ انسان کے اندر سچائی کا ےہ پَرتو کہاں سے حاصل ہوتا ہے حق اور سچائی کا پَرتو انسان کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے اور برسرِ دربار بھی اپنی بات کہنے سے گرےز نہےں کرتاہے ۔ ےا تو وہ کامےاب ہوتا ہے ےا اپنی جان کو حق کی راہ مےں قربان کرتا ہے ۔ظاہر ہے کہ سچائی ازل سے لےکر آج تک اےک ہی رہی ہے اور رہے گی ۔ سچائی حق تعالیٰ کی عطا کردہ اےک عظےم نعمت ہے جو خدا کے عاشقوں اور سر دھڑ کی بازی لگانے والوں کو ملتی ہے ۔
 سچائی کی پہچان اللہ کی ذات ہے اور اسکے بعد پےغمبرانِ اسلام اور خصوصی طور سے حضورؑ کی ذات ِ با برکت ہے جےسا کہ اقبال نے فرماےا 
     حرّےت پروردہِ آغوش ا اوست
     ےعنی امروز امم ازدوش اوست
     گرمئی ہنگامہ بدر و حنےن 
     حےدر ؓ و صدےقؓ و فاروقؓ و حسےنؓ 
آزادی کا جذبہ آپ ہی کی آغوشِ مبارک کا پروردہ ہے اور ےہ اقوام عالم ترقےات آپ ہی کے عظےم الشان ماضی کا ثمر اور نتےجہ ہے بدر و حنےن کی فتح آپ ہی کے جوش و خروش ا کے دم سے تھی اور صدےقؓ و فاروقؓ اور حےدرؓ اور شہےد عالی مقام حضرت حسےنؓ کی شخصےت آپ ہی کی ہمہ صفت ذات کی تجلےاں تھےں۔
ظاہر ہے ےہ سلسلہ قےامت تک قا ئم رہے گا اور آزادی کے دےوانے اپنے اپنے ظرف کے حساب سے اس سے فےض حاصل کرتے رہےں گے ہم کو ےہ پَرتو شمسی صاحب کی شاعری مےں بھی نظر آتا ہے 
  مرگ و کفن کے مےل سے ڈرتا نہےں ہوں مےں
  دار و رسن کے کھےل سے ڈرتا نہےں ہوں مےں
  ان سختےوں سے ضبط کی پونجی نہ جائے گی 
  تےغوں کی چھاو ¿ں مےں بھی ہنسی لب پہ آئے گی
سچّی محبت کےا ہوتی ہے اس حقےقت کو شاعر جس گہرائی سے محسوس کرتا ہے اور اسکو ا اُ تنی سادگی سے بےان کر دےتا ہے کہ دوسرے شاعروں کے کلام مےں ہم کو ےہ چےز مشکل سے نظر آتی ہے جےسا کہ انکی نظم تاج محل مےں شاہ جہاں کی محبت کے تعلق سے انکے اشعار ہےں۔
     ہوس کا شور محبت کے آس پاس نہ تھا
     تڑپ تڑپ کے رہا پھر بھی بدحواس نہ تھا
     وفا کی دُھن مےں کبھی کوئی برہمی نہ ہوئی
     کہ موت سے بھی محبت مےں کچھ کمی نہ ہوئی
     نےاز عشق کا ےہ انداز کس نے پاےا تھا
     عروج غم کا ےہ انداز کس نے پاےا تھا 
شمسی صاحب کی اےک دِلی آرزو تھی وہ ےہ تھی کہ ہندوستان پاکستان اےک ہوں ےہ تمنائے شاعر جتنی پہلے ضروری تھی اتنی آج بھی ہے کہتے ہےں کہ 
    آپس مےں رہےں برسرِ پےکار کہاں تک 
    دےکھےں گے ےہ جلتا ہو گلزار کہاں تک 
    رُک پائے گا سچائی کا اظہار کہاں تک
    ٹِک پائے گی ےہ جھوٹ کی دےوار کہاں تک 
    بچھڑے ہوئے مل جائےں تمنا تو ےہی ہے 
    ہو جائے چمن اےک تقاضا تو ےہی ہے
شمسی صاحب کی اےک مشہور نظم (مےں ہندوستان مےں کےوں رہتا ہوں ) ہے جس مےں اور باتوں کے علاوہ بزرگانِ دےن کے فےض کا ذکر کرتے ہےں اور یس بات کا اعتراف کرتے ہےں کہ شراب ِ معرفت کا مےں بھی معتقد ہوں اور جو مےری شاعری مےں سادگی اور سچائی کا بانکپن وہ بزرگانِ دےن کا فےض ہے فرماتے ہےں 
        سرہند مےں کسی کا ابھی فےض و عام ہے
        مےنائی ہوں مےرے لئے مےنا کا جام ہوں      



      


ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی