پروفیسر اسد اللہ خاں نے اینٹی بیکٹیریئل مدافعت کے خطرات سے آگاہ کیا



علی گڑھ: اینٹی بیکٹیریا مدافعت کے بڑھتے ہوئے معاملات کی وجہ سے آنے والے دنوں میں لاکھوں لوگوں کی زندگی کے سامنے سنگین خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ 
 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کے انٹر ڈسپلنری بایوٹکنالوجی سنٹر کے کوآرڈنیٹر پروفیسر اسد اللہ خاں نے بین الاقوامی سائنس میگزین ’ نیچر‘ میں شائع شدہ اپنے تحقیقی مضمون میں آگاہ کیا ہے کہ یہ خطرہ سنگین رخ اختیار کرسکتا ہے اور یہ تشویش کی بات ہے کہ ابھی تک اس طرف خاص توجہ نہیں دی گئی ہے، جب کہ عالمی صحت تنظیم اس مسئلہ کو سن 2014 میں اپنے اولین توجہ والے مسائل میں شامل کرچکی ہے۔ 
 بنجامن پلیکیٹ کے مضمون میں پروفیسر اسد اللہ خاں نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ اینٹی بیکٹیریا مدافعت ایک سنگین صحت خطرہ کے طور پر سامنے آسکتی ہے۔ 
 انھوں نے کہا کہ کئی فارما کمپنیاں اس میں ہونے والے کم فائدہ کے سبب اسے نظر انداز کررہی ہیں۔ بڑی فارما کمپنیوں میں تحقیق کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ ہر سال لاکھوں لوگ اینٹی بیکٹیریا مدافعت کے باعث بیکٹیریا کا شکار ہوجاتے ہیں۔ انھوں نے زور دیتے ہوئے کہاکہ اینٹی بیکٹیریئل دواو ¿ں کی آمد کے فوراً بعد اینٹی بیکٹیریئل مدافعت نظر آئی۔ کمپنیوں کے لئے بہت برسوں تک یہ تشویش کا موضوع رہا لیکن اب یہ کام سست ہوگیا ہے۔ 
 پروفیسر خان نے اپنے مضمون میں واضح کیا ہے کہ 1960کی دہائی سے بیکٹیریا ، اینٹی مائیکروبیئل دواو ¿ں کے تئیں قوت مدافعت پیدا کررہے ہیں اور اس سے ہر سال تقریباً سات لاکھ لوگوں کی موت ہورہی ہے۔عالمی صحت تنظیم کا اندازہ ہے کہ سن 2050 تک اموات کی یہ تعداد سالانہ دس ملین بھی ہوسکتی ہے۔ 




جدید تر اس سے پرانی