فراق کی شعری تخلیقات میں صدی کی آواز صاف سنائی دیتی ہے:انیس انصاری

 



فراق بیسویں صدی کے جدید ذہن کی پیداوار تھے :حسن کمال
ہندی اردو ساہتیہ ایوار کمیٹی کے۸۲ویںفراق بین الاقوامی ادبی تقریبات کاعالمی مشاعرہ کا ساتھ اختتام 
  لکھنو،فراق کی شاعری اور خصوصاًان کی رباعیاںہندوستان کی قدیم تہذیب اور جمالیاتی اقدار کا مظہرہیں،ا فراق رنگ ونکہت کے حوالے سے جسمانی تجربے کا بیان کرتے ہیں،عام طور پر فراق کے لہجے میں میر کی نشان دہی ہے۔فرق کی شاعری میں مادہ کی روحانیت کااحساس بھی ہوتا ہے اورانسان اورفطرت کے باہمی قرب کا اظہار بھی، بعض خانگی وجوہ کی بناءپر فراق کے اندر نفرت کا سمندر موجزن ہوگیاتھااور جس کاتریاق وہ اپنی شاعری میں ڈھونڈھتے تھے،فراق نے اپنی عنصری تنہائی کا علاج شاعری کی جمالیاتی فضاءمیں تلاش کیا۔مذکورہ خیالات کااظہار پروفیسرانیس انصاری سابق وائس چانسلراردو عربی فارسی یونیورسٹی،لکھنو ¿ نے ہندی اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی کے ذریعہ منعقدپانچ روزہ ۸۲ویں فراق بین الاقوامی ادبی تقریبات کے آخری دن بین الاقوامی مشاعرہ کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔
 صدر جلسہ مسٹرانصاری نے مزیدکہاکہ فراق نے اردو کی عشقیہ شاعری کو ایک آفاقی گونج دی۔ان کی شاعری میں انسانی تہذیب کی صدیاں بولتی ہیں۔وہ انگریزی کے رومانی شاعروں ورڈز ورتھ، شیلی، کیٹس سے متاثر تھے تو دوسری طرف سنسکرٹ کاویہ رواےت کا بھی ان کے نظریہ جمال پر گہرا اثر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ شاعر کے نغمے وہ ہاتھ ہیں جو رہ رہ کر آفاق کے مندر کی گھنٹےاں بجاتے ہیں۔فراق کے بنیادی موضوعات حسن وعشق، انسانی تعلقات کی دھوپ چھاﺅں وغیرہ ہیں۔فراق صدی کے آواز تھے-ایک ایسی آواز-جس میں اس صدی کی تاریخ کا درد وکرب،ابتہاج ومسرت،لااُبالی پن ووارفتگی،جدوجہد وکشمکش،تمنا و تڑپ، عیش ونشاط،محرومی اور گھٹن،رواےت وتجربہ سب شامل تھے۔فراق کی شعری تخلیقات میں صدی کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی، اس لئے ان کا نام بھی منفرد ہے اور سہ جہتی معنوےت وتہہ داری رکھتا ہے۔
 بین الاقوامی ادبی تقریبات کے اختتام پر مہمانان،شرکائ،ادباءوشعرا اور تخلیق کاروں کا شکریہ اداکرتے ہوئے کمیٹی کے جنرل سیکریٹری اطہر نبی نے کہا کہملک کی موجودہ صورت حال سے انتہائی حساس سمجھے جانے والے سماج کے علاوہ جسے عام طورپر ’مبتلائے گل وبلبل“ کہہ دیاجاتا ہے عوام کو کس طرح متاثر کررکھا ہے اس کا اندازہ یہاں فراق گورکھپوری پر منعقد بین الاقوامی سیمینار/ویبنار کے سلسلے میں آن لائن یکجا ملک وبیرون ملک کے شاعروں کے ”فراق بین الاقوامی مشاعرہ“ میں پڑھے جانے والے اشعار اورآن لائن ناظرین کی تعداد سے کیا جاسکتاہے ۔اس مشاعرے میں شعرا ءنے فرقہ پرستی،فرقہ وارانہ فساد،نام نہاد مذہب کی سیاست اور سیاست سے حقیقی مذہبی اقدار کی بے دخلی کے علاوہ جہیز،مفلسی،بدعنوانی اور نفرت کوہدف ملامت بنایا اور محبت،امن وامان اورآفاقی اخلاقی قدروں کا پیغام دیا۔انہوں نے کہا دعاگو ہوں کہ جلد کورونا وباءسے ملک ودنیا کو نجات مل جائے تاکہ آئندہ سے بین الاقوامی ادبی تقریبات کاانعقادحسب سابقہ ہوسکے۔انہوں نے آخرمیں اپنی کمیٹی کے تمام ارکان خصوصاً تکنیکی ٹیم کا شکریہ ادا کیا جن کے تعاون سے ہی آن لائن پانچ روزہ پروگرام منعقد ہوسکا۔افتتاحی اورتعارفی کلمات ضیاءاللہ صدیقی نے اداکئے اور مہمانان اورشعراءحضرات کاخیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کی دلچسپوںاور تعاون کی وجہ سے آج پانچ روزہ فراق بین الاقوامی ادبی تقریبات کامیابی کے ساتھ اختتام کوپہونچی جس کی کامیابی کا سہرااطہر نبی اور ان کی پوری ٹےم کوجاتا ہے اور میں اس کامیاب انعقاد کیلئے میں ان کو اور ان کی پوری ٹیم کومبارکباد پیش کرتا ہوں۔مشاعرہ کی نظامت معروف شاعر حسن کاظمی نے شعراءکاتفصیلی تعارف کراتے ہوئے کی اور اپنے اس مشہور شعر سے مشاعرہ کی نظامت کا آغاز کیا 
سب مرے چاہنے والے ہیں مرا کوئی نہیں
میں بھی اس ملک میں اردو کی طرح رہتا ہوں
 مشاعرہ کا آغازمعروف کالم نگاراور رائٹروشاعرحسن کمال ممبئی نے کیا انہوں نے کہا فراق بیسویں صدی کے جدید ذہن کی پیداوار تھے اوررومانی بصیرت کے حوالے سے کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔فراق کی شاعری میںتکرارکے اظہار کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ ان کی یہ عادت تکمیلےت کی تلاش ہے۔فراق ایک عظیم فن کار تھے لہذا ان کے ایک ہی چہرے میں کئی چہروں کے نقوش نظرآتے تھے۔فراق کی شاعری بنیادی طور پر احساسات کی شاعری ہے جس کا خمیر ہندوستانی جمالیات سے اٹھاتھا۔ مشاعرے میں پڑھے جانے والے کچھ مشہور اور پسندیدہ اشعار پیش قارئین ہیں۔
آنکھوں میں ہے بسا ہوا طوفان دیکھنا
نکلے ہیں دل سے یوں مرے ارمان دیکھنا
بھولا ہوں جسکے واسطے میں اپنے آپ کو
وہ بھی ہے میرے حال سے انجان دیکھنا
   ڈاکٹر زبیر فاروق،دوبئی
میں کے گفتگو سے غیر کو اپنابناتا ہوں
ادھر یہاں بیٹھو ،تمہیں جادو سکھاتاہوں
ہمارے فیصلے ہی اکثرہمکو اکثر مار جاتے ہیں
جہاں پر جیتناہو ہم وہیں پر ہار جاتے ہیں
   قیصر وجدی کراچی
وہ اپنی گفتگو کم کررہی ہے،مجھے موقع فراہم کررہی ہے
دیوانہ مرگیا شاید تمہارا،ہوائے دشت قائم کررہی ہے
   عثمان مینائی
دل تو کیا جان ہار سکتی ہوں
ہر خوشی تجھ پہ وار کرسکتی ہوں
پہلے ڈرتی تھی اک پتنگے سے
ماں ہواب سانپ مار سکتی ہوں
   متین سیف کراچی
یقین ٹوٹ گیا گمان باقی ہے
ہمارے سر پہ ابھی آسمان باقی ہے
انہیں یہ زعم کہ فریاد کا چلن نہ رہا
ہمیں یقین کہ منھ میں زبان باقی ہے
  حسن کمال
جسے سب عشق کہتے ہیں میرے سینے میں رہتا ہے
کہ صدیوں سے یہ پتھر اسی کعبے میں رہتا ہے
سنجے مشرا شوق
میری پہونچ سے اک دن باہر ہوجائیں گے
چھوٹے پودے پیڑتناورہوجائیں گے
مشکل سہتے سہتے پتھر ہوجائیں گے
اب اپنے حالات بھی بہترہوجائیں گے
   عتیق انظر،دوحہ قطر
جب ہمارے سامنے ہجرت کا منظر آگیا
یوں ہوا محسوس دل سینے سے باہر آگیا
نام تیرا آگیا تھا درمیان گفتگو
مری آنکھوں کے جزیرے میں سمندر آگیا
   احمداشفاق،دوحہ قطر


ملنا ہے تو آجیت لے میدان میں ہم کو
ہم اپنے قبیلے سے بغاوت نہیں کرتے
   ڈاکٹر نسیم نکہت
کیا زمانہ ہے کبھی یوں بھی سزا دیتا ہے
مرادشمن مجھے جینے کی دعا دیتا ہے
   حسن کاظمی
خموش لب ہیں جھکی ہیں پلکیں دلوں میں الفت نئی نئی ہے
ابھی تکلف ہے گفتگو میں ،ابھی محبت نئی نئی ہے
ابھی نہ آئے گی نیند تم کو ابھی نہ ہم کو سکوں ملے گا
ابھی تو دھڑکے گادل زیادہ ابھی یہ چاہت نئی نئی ہے
   شبینہ ادیب
ارادے ہوں جواں جنکے وہی بازی پلٹے ہیں
مخالف کیلئے ہر آدمی آندھی نہیںن ہوتا
حویلین چھوڑ کے کچے مکان میں رہنا پڑتا ہے
فقط چرخہ چلانے سے کوئی گاندھی نہیں ہوتا
   جوہر کانپوری 
         ہندی اردو ساپتیہ ایوارڈ کمیٹی،اترپردیش 



ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی