فراق کی شاعری میں ہندوستان کی عظیم تہذیبی روح جلوہ گرتھی:انوپ جلوٹا 


ہندی اردو ساہتیہ اےوارڈ کمیٹی کی جانب سے انوپ جلوٹا”بیگم اختر“ ایوارڈ سے سرفراز
 لکھنو ¿12اکتوبر فراق گورکھپوری اپنے ہم عصرشاعروں میں سب سے قدآورشاعر تھے،فراق کی شاعری میں ہندوستان کی عظیم تہذیبی روح جلوہ گرتھی،ان کی شاعری میںوہ تمدن تھا جو سب کو اپنے اندر سمیٹنے کی صلاحےت رکھتا تھا اور اسی لئے انہیں عظیم دانشور کے طورپر دیکھا،سمجھا اور پڑھاگےا۔انہوں نے ہمیشہ اردو زبان کے لئے بہت کچھ کہا،لکھا پڑھا ،مگر یہ بھی سچائی ہے کہ ان کے اشعار ہرایک کے دل میں بڑی خوبصورت بزمِ خیال سجاتے ہیں جہاں صرف پیار اور محبت کے چراغ جلتے ہیں۔فراق نے پوری زندگی ہندی اور اردو کو قریب لانے کی کوشش کی وہ ہندوستانی تہذیب اور ثقافت پر نہ صرف فخر محسوس کرتے تھے بلکہ اس کی حفاظت اور بقا کے لئے مستقل فکرمند رہا کرتے تھے۔آج کا برقی سیمینارفراق پر مرکوز اور محیط ہے اور جب فراق کا نام آتا ہے تو اردو شاعری کی تاریخ اس کا ایک عہد بھی سامنے آتا ہے اگرچہ فراق بذات خود ایک عہد تھے۔مذکورہ خیالات کااظہارنغمہ نگار انوپ جلوٹا نے ہندی اردوساہتیہ ایوارڈ کمیٹی کے ذریعہ منعقد۸۲ویں فراق بین الاقوامی ادبی تقریبات کے چوتھے روزبیگم اخترایوارڈحاصل کرنے کے بعد پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔انوپ جلوٹا نے ایوارڈ ملنے پر ہندی اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی کے جنرل سیکریٹری اطہر نبی کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ اداکیا اور انہوں نے کہا کہ ان کو بیگم اختر ایوارڈ ملنا کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ہندی اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی کے زیر اہتمام ۸۲ویںفراق بین الاقوامی ادبی تقریبات کے چوتھے روزثقافتی پروگرام”شام غزل“ کا اہتمام کیا گیا۔
 اس موقع پر مشہور نغمہ نگار انوپ جلوٹا کوممبئی میں آن لائن پروگرام کے ذریعہ ”بیگم اختر ایوارڈ سے سرفرازکیا گےا۔یہ ایوارڈ ہندی اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی جانب مشہور غزل خواں اورنغمہ نگاری اے این طراز کے بدست انوپ جلوٹا صاحب کو پیش کیا گےا۔ہندی اردوساہتیہ ایوارڈکمیٹی کے جنرل سیکریٹری اطہر نبی نے اپنی کمیٹی کی خدمات او رمہمانان کا تعارف کروایا ۔اورفراق کاہندی اردوسے کیا رشتہ تھا تفصیلاً اس کے بارے میں بھی بتاےا۔اطہر نبی نے بیگم اختر کے حوالے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے مزید کہاکہ بےگم اختر نے پوری دنیا میں نہ صرف ہندوستان کا بلکہ لکھنو کا نام بھی روشن اور آج یہ ایوارڈ اپنے صحیح حقدار کے پاس پہنچا ہے۔انوپ جلوٹا جی کا بھی تعلق لکھنو ¿ سے ہے اور انہوں نے بھی اپنے نغموںکے ذریعہ لکھنو ¿ کا نام پوری دنیا تک پہنچایا ۔مذکورہ پروگرام لکھنو ¿ کی معروف شخصےت وجاہت فاروقی کے دولت کدہ خرم نگر میں منعقدہوا۔اس موقع پر شائقین اور ناظرین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود رہی۔اس موقع پر فراق کی مختلف غزلوںکو متھلیش لکھنوی اورانوپریہ سنگھ کے ذریعہ پیش کیا گیا اورانوپ جلوٹا صاحب نے بہترین گائیکی اور نغموں سے عوام اورسامعین وناظرین کو محظوظ کرایا۔چند مشہور اورچنندہ گائی جانے والی غزلیں پیش ہیں۔
بہت پہلے سے ہم ان قدموں کی آہٹ جان لےتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لےتے ہیں


رات بھی،نیند بھی،کہانی بھی
ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی


آنے والی نسلیں تم پر رشک کریں گی ہم عصروں
جب یہ دھیان آئے گا ان کو کہ تم نے فراق کو دیکھا تھا


غزل کے ساز اٹھاﺅ کہ بڑی اداس ہے رات
نوائے میر سناﺅ کہ بڑی اداس ہے رات


شام بھی تھی دھواں دھواں، حسن بھی اداس اداس
دل کی کئی کہانیاں یاد سی آکر رہ گئیں


شام غم کچھ اس نگاہ ناز کی باتےں کرو
بےخودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو


چاند انگڑائی لے رہاہے ،چاندنی مسکرانے لگی ہے
آج بھولی ہوئی کہانی پھر مجھے یاد آنے لگی ہے 
 اس موقع پر جن لوگوں نے خاص طور پرشرکت کی ان میں بطور خاص وجاہت فاروقی،تبسم فاروقی،سرفراز زاہد،چاند سکسینہ،سید غلام حسین،ڈاکٹراحتشام احمدخان، ڈاکٹر مسیح الدین خان ،شاعر حسن کاظمی، ضیاءاللہ صدیقی ،ڈاکٹریاسر جمال،راج ویر رتن،غلام حسنین خان،سرفرا زاہد،سندیپ گپتا،زاہد علی،انل تیواری،رفیع احمد،ڈاکٹرارشاد بیاروی اوراجے شکلا وغیرہ تھے۔فیسٹویل کے ذریعہ چوتھے دن کا پروگرام پورے دن چلا۔آخری دن کا پروگرام ان شاءاللہکل مشاعرہ ہوگا۔آخر میں مہمانان کا شکریہ وجاہت فاروقی نے اداکیا اور پروگرام کے اختتام کااعلان کیا۔



جدید تر اس سے پرانی