دور حاضر میں لفظ استشراق کا خاتمہ ، اسلام مخالف سرگرمیوں کا نہیں



اسلامک اسٹڈیز، مانو میں ایک روزہ ویبینار ۔ پروفیسر رحمت اللہ ، پروفیسر قدوائی و دیگر کے خطاب
حیدرآباد,  ”کسی بھی چیز کو ثابت کرنے کے دو طریقہ ¿ کار ہوسکتے ہیں،پہلا جس کی بنیاد اقدار پر ہوتی ہے اور دوسرا طریقہ جس کی بنیاد حقائق پر ہوتی ہے، لیکن حقائق کی بنیاد پر کہی جانے والی بات اپنے اندر گہرائی و گیرائی رکھتی ہے۔اس طرح کے عناوین پر ویبینار اورگفتگو کرنا دعوتی پہلو سے بھی اہمیت کا حامل ہے“۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، شیخ الجامعہ انچارج، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے ایک روزہ ویبینار کا افتتاح کرتے ہوئے کیا۔ یہ ویبینار شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے’ ’اسلامی مطالعات فورم“ کے تحت 19اکتوبر کو ”دور حاضر کے استشراق کا منہج تحقیق“ کے عنوان پر منعقد کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے افتتاحی کلمات میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے اساتذہ کی مشترکہ کوششوں کو سراہا اور اس اہم موضوع پر ویبینار کے انعقاد پر صدر شعبہ پروفیسر محمد فہیم اختر اور فورم کی کنوینر محترمہ ذیشان سارہ (اسسٹنٹ پروفیسر) کو مبارک باد پیش کی۔ پہلے مہمان مقررپروفیسر علیم اشرف جائسی( صدر شعبہ عربی) نے ’دور حاضر کا استشراق:اسلوب اور منہج‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”1973ءمیں لفظ استشراق کے نام کا خاتمہ ہواجب کہ اسلام مخالفت والا کام اب بھی اتنی ہی تیز گامی سے جاری ہے جتنا ماضی میں تھا، خصوصاً نائن ایلیون والے حادثہ کے بعد مستشرقین نے اسلام اور مسلمانوں کو مغرب میں انتہا پسند، متشدد اور انسانیت دشمن بناکر پیش کیا۔ جب سے امریکہ استشراقی کاموں کا مرکز بنا تب سے استشراقی منہج میں سطحیت آگئی ہے۔الیکٹرانک میڈیا، ڈراموں، ٹی وی سیرئلس وغیرہ استشراقی مقاصد کو پورا کرنے کے جدید آلات کے طور پر استعمال ہورہے ہیں“۔ پروفیسر عبدالرحیم قدوائی( ڈائریکٹر یو جی سی ایچ آر ڈی سنٹر ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے ’قرآن اور مستشرق‘ کے عنوان پربہت اہم اور پر مغز خطاب پیش کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ”قرآن اپنی صحت اور سند میں بے مثال ہے۔ قرآن میں تحریف کی ناکام کوشش کرنے کے بعد مستشرقین نے قرآن مجید کے ایسے ترجمے لکھے جو غلطیوں سے پُر ہیں۔بعد میں مسلمانوں کے ذریعہ انگریزی میں قرآن کے ترجمے آئے اور ان تراجم نے مستشرقین کی بد نیتی کا پردہ چاک کردیا۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلامک اسٹڈیز کے طلبہ کو تحقیقی و تجزیاتی طریقہ کار پر مستشرقین کی لکھی کتابوں کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے “۔ ریسرچ اسکالر مجتبیٰ فاروق نے دور حاضر کے استشراقی طریقہ کار پر عمومی اور ٹوبی لیسٹر کے خصوصی حوالے سے گفتگو کی۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ ”انسائیکلو پیڈیا آف قرآن کی تیاری میں قرآن کے ماہرین مسلم اسکالرس سے خاطر خواہ علمی تعاون نہیں لیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ ٹوبی لیسٹر ایک صحافی ہے ، جس نے قرآن پر ایک مضمون لکھا جو پوری طرح جھوٹ اور افترا پر مبنی ہے لیکن اسے اسلام دشمن حلقوں میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ جدید دور کے استشراق کی سطحیت کو دکھاتا ہے۔ انہوں نے مستشرقین کے موجودہ طریقہ کار ’پہلے تعمیر پھرتخریب‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے مایئکل ایچ ہارٹ کی کتاب ’دی ہنڈریڈ ‘ کی مثال دی۔ جس میں محمد کو سب سے زیادہ با اثر شخصیت کے طور پر بتاکر قارئین کا دل جیت لیا ، لیکن بعد میں اسی کتاب میں منفی پہلو کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے“۔ پروفیسر محمد فہیم اختر ندوی نے تینوں مقررین کے قیمتی خطبوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ” نزول قرآن کے زمانے میں بھی مشرکین مکہ نے محمد پر جھوٹے الزامات لگائے اور سخت اعتراضات کئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام اعتراضات کا نہ صرف جواب دیا بلکہ انہیں قرآن کا حصہ بھی بنایا۔ آج بھی اپنے قول اور عمل کے ذریعہ اسلام اور پیغمبر اسلام پرہونے والے اعتراضات کا علمی جواب دیا جاسکتا ہے۔“ ویبینار کا آغاز سیف الدین(ایم اے سال دوم) کی تلاوت سے ہوا۔صدر شعبہ نے مہمانوں کا استقبال کیا۔محترمہ ذیشان سارہ نے ویبینار کی ابتداءمیں مہمان مقررین اور موضوع کا تعارف کرایا۔ ساتھ ہی نظامت کے فرائض بھی انجام دئے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

Please Select Embedded Mode To Show The Comment System.*

جدید تر اس سے پرانی