خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے صنفی مساوات پہلا قدم ہے: پروفیسر شاہد علی صدیقی



خواتین تفویض اختیارات پر جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج میں سہ روزہ اورئنٹیشن پروگرام کا آغاز
علی گڑھ، : خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے صنفی مساوات پہلا قدم ہے اور یہ آئین ہند میں بھی شامل ہے جس کی بنیاد پر حکومت پالیسیاں اور پروگرام ترتیب دیتی ہے“۔ ان خیالات کا اظہار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر شاہد علی صدیقی نے کیا۔ وہ جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج میں ڈائرکٹر جنرل، طبی تعلیم و تربیت ، لکھنو ¿ کی ہدایات کے تحت سہ روزہ ’خواتین تفویض اختیارات: صلاحیت افزودگی اورئنٹیشن پروگرام‘ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ 
 سماج میں مردوں کی اجارہ داری اور غلبہ کی ذہنیت کو تبدیل کئے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے پروفیسر صدیقی نے کہاکہ مردم شماری 2011 کے مطابق ہندوستان میں خواتین کی شرح خواندگی تقریباً 60فیصد ہے جب کہ مردوں کی شرح خواندگی 80 فیصد ہے جو تشویش کا موضوع ہے کیونکہ تعلیم ہی ایک بنیادی ذریعہ ہے جو تفویض اختیارات میں خاص رول ادا کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ خاتون کو تعلیم یافتہ بنانے کا مطلب ہے پورے کنبہ اور سماج کو تعلیم یافتہ بنانا۔ 
 پروفیسر صدیقی نے کہا کہ ہندوستان نے مارچ 2019 میں مشن شکتی کے نام سے ایک پروگرام لانچ کیا تھا جس میں سٹیلائٹ کو نشانہ بنانے کے لئے ایک میزائل کو ٹسٹ کیا گیا تھا۔ اب اسی نام پر ایک پروگرام حکومت اترپردیش نے لانچ کیا ہے جس کا ہدف پولیس اور عوام میں خواتین کے تئیں حسیت پیدا کرنا اور خواتین میں تحفظ کا احساس پیدا کرنا ہے۔ 
 پروفیسر نعیمہ خاتون (پرنسپل، ویمنس کالج) نے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہر ادارہ اور ہر سطح پر فیصلہ ساز کمیٹیوں میں خواتین کو شامل کیا جانا چاہئے تاکہ خواتین کے نظریہ سے معاملات پر گفتگو ہوسکے۔ ایک مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہاکہ حقوق انسانی کے عالمی اعلامیہ کے دستاویز میں محترمہ ہنسا مہتا نے صنفی اعتبار سے حساس زبان کے استعمال کو یقینی بنایا اور اس میں ’مردوں کے حقوق‘ کے بجائے’ سبھی انسانوں کے حقوق ‘ لکھوایا۔ ہنسا مہتا حقوق انسانی پر اقوام متحدہ کے کمیشن میں ہندوستانی مندوب تھیں۔ 
 خواتین کے تفویض اختیارات میں تعلیم کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر نعیمہ خاتون نے علی گڑھ میں ویمنس کالج کے قیام میں شیخ عبداللہ عرف پاپا میاں کی کاوشوں اور انھیں پیش آنے والی رکاوٹوں کا بھی ذکر کیا۔ انھوں نے کہا ”اگر آپ اپنی کمیونٹی کی خواتین کو بااختیار نہیں بناتے ہیں اور انھیں اچھی تعلیم نہیں دلاتے ہیں تو سائیکل کا ایک پہیہ پنکچر رہے گا اور اس خامی کو دور کئے بغیر ترقی ممکن نہیں ہوگی“۔ 
 پارلیمنٹ میں خواتین کو ریزرویشن نہ دئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر نعیمہ خاتون نے کہاکہ سیاسی قوت ارادی کے فقدان کے سبب خواتین کو ان کے حق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ انھوں نے کہاکہ متعدد ملکوں میں کووِڈ-19 کے وقت میں خواتین کی قائدانہ صلاحیت ابھر کر سامنے آئی ہے ۔ خواتین جہاں جہاں بھی قائدانہ رول میں ہیں وہاں انھوں نے اچھا کام کیا ہے اور وہاں انسانی ترقی کا اشاریہ بھی بہتر ہے۔ 
 اس سے قبل پروفیسر راکیش بھارگو (ڈین، فیکلٹی آف میڈیسن، اے ایم یو) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے سماج میں صنفی خلیج بہت زیادہ ہے اور اس خلیج کو پُر کرنے کے لئے لڑکیوں کی تعلیم کو اولین ترجیح دینا چاہئے۔ 
 انھوں نے کہا ”سیاسی اور اقتصادی اختیار دہی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی سپورٹ کا بھی ایک نظام ہونا چاہئے تاکہ خواتین خود کو محفوظ تصور کریں۔ اس حوالہ سے اترپردیش کے پولیس تھانوں میں ہیلپ ڈیسک کا قیام ایک اچھا قدم ہے جسے حکومت اترپردیش نے ’مشن شکتی‘پروگرام کے تحت شروع کیا ہے“۔ 
 پروفیسر سنگیتا سنگھل (چیئرپرسن، شعبہ ¿ فزیالوجی، جے این میڈیکل کالج اور پروگرام کوآرڈنیٹر ) نے پروگرام کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے پروگرام کی نظامت کی۔ اس موقع پر جے این میڈیکل کالج کی اسسٹنٹ ایڈمنسٹریٹیو آفیسر عادلہ سلطانہ، مختلف شعبوں کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات کثیر تعداد میں موجود تھے۔ 



جدید تر اس سے پرانی