مسدس حالی خلوص دردمندی اور شعری حسن کے شاہکار

مسدسِ حالی خلوص، دردمندی اور شعری حسن کا شاہکار۔پروفیسر صدیقی محمد محمود تاریخ مٹائی جا سکتی ہے لیکن ادب نہیں مٹایا جا سکتا۔ پروفیسربیگ احساس مسدسِ حالی پر بازگشت آن لائن ادبی فورم کا پروگرام حیدرآباد، 17/ جنوری(پریس نوٹ) ”مسدسِ حالی“ اردو کی پہلی مقصدی نظم ہے۔اپنے خلوص اور شاعرانہ دردمندی کی وجہ سے یہ نظم ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔پہلی بار شاعری کا استعمال اصلاحی مقصد کے لیے کیا گیا لیکن مقصدیت کے باوجود اس تخلیق کے شعری حسن میں کمی نہیں آتی۔“ ان خیالات کا اظہارممتاز ماہر تعلیم اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کے انچارج رجسٹرار پروفیسر صدیقی محمد محمودنے بازگشت آن لائن ادبی فورم کی جانب سے مسدس ِحالی کے منتخب حصوں کی پیش کش اور گفتگو پر مبنی گوگل میٹ پر منعقدہ پروگرام میں بہ حیثیت مہمان خصوصی اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ حالی کی شخصیت میں ایک غیر معمولی کشش اور جاذبیت تھی۔حالی نے قوم کو ’پدرم سلطان بود‘ کے مغالطے سے نکال کر اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بنانے کی ترغیب دی۔ مسلمانوں کو ایک زمانے میں عروج کیوں حاصل ہوا، اس کے اسباب پر غور کرنے اور اپنے موجودہ حالات کو بہتر بنانے کی تلقین کی۔ حالی کے اشعار کے ذریعے ان کے فلسفہ کائنات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ پروفیسر بیگ احساس، نامور افسانہ نگار، سابق صدر شعبہ اردو اورسرپرست بازگشت آن لائن ادبی فورم نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ حالی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔انھوں نے ہر صنف میں لکھا اور اپنے نقش ثبت کیے۔وہ شاعر، نقاد، سوانح نگار اور ناول نگار تھے۔ تعلیم حاصل کرنے کا شوق انھیں پانی پت سے دلی کھینچ لایا۔انھیں غالب اور سرسید سے عقیدت تھی۔جیسا کہ نظم کے عنوان سے ظاہر ہے کہ حالی نے اس میں اسلام کا مدوجزر پیش کیاہے۔دراصل یہ اسلام کی عظمت اور مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان ہے۔پروفیسر بیگ احساس نے کہاکہ تاریخ مٹائی جا سکتی ہے لیکن ادب نہیں مٹایا جاسکتا۔حالی کو یقین نہیں تھا کہ یہ نظم اتنی مقبول ہوگی۔انھوں نے اس نظم کو ابالی کھچڑی سے تعبیر کیا۔حالی کے لہجے میں کہیں تلخی کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ فکرمندی جھلکتی ہے۔اقبال نے حالی کا اثر قبول کیا لیکن اقبال کے یہاں شکوہ ہے جب کہ حالی کے یہاں سادگی ہے۔اس موقع پر انھوں نے نظام دکن نے حالی کو جو وظیفہ مقرر کیا تھا اس کا بھی تذکرہ کیا۔ڈاکٹر جاوید کمال، مدیر”ریختہ نامہ“ اور سابق استاد گورنمنٹ ڈگری کالج حسینی علم، حیدرآبادنے دل نشیں لہجے میں مسدس حالی کے منتخب بند پیش کیے۔ڈاکٹراسلم فاروقی اور ڈاکٹر محمد ناظم علی نے مباحث میں حصہ لیا۔ ابتدا میں انتظامیہ کمیٹی کی رکن ڈاکٹر گل رعنا، استاد شعبہ اردو، تلنگانہ یونی ورسٹی، نظام آبادنے مولاناالطاف حسین حالی کی حیات و خدمات پر مختصر روشنی ڈالی اور جلسے کی بہترین نظامت کی۔انتظامیہ کمیٹی کی رکن ڈاکٹر حمیرہ سعید، پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج فار ویمن، سنگا ریڈی نے مہمانوں کا تعارف پیش کیا اور پروگرام کے آخر میں اظہارِ تشکر کیا۔اس اجلاس میں ملک و بیرونِ ملک کے شائقین ادب، اساتذہ اور طلبا و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان میں پروفیسرمحمد نسیم الدین فریس، پروفیسر غیاث الرحمٰن سید، پروفیسرغلام شبیر رانا،پروفیسر اشتیاق احمد، جناب سردار علی، جناب محمد عبدالرحمٰن،ڈاکٹر سعید نواز، ڈاکٹر محمد قمر سلیم، جناب ملکیت سنگھ مچھانا،جناب غوث ارسلان،جناب حنیف سید،ڈاکٹر ریشماں پروین، ڈاکٹر ہادی سرمدی،ڈاکٹر مشرف علی، ڈاکٹر کفیل احمد، ڈاکٹر ابو شہیم خان، ڈاکٹر تلمیذ فاطمہ نقوی، ڈاکٹر آفاق ندیم خاں، محترمہ صائمہ بیگ، محترمہ فرح تزئین، ڈاکٹر تلمیذ فاطمہ نقوی، محترمہ عظمیٰ تسنیم، ڈاکٹر صابر علی سیوانی،ڈاکٹر عطیہ رئیس،ڈاکٹر روبینہ، ڈاکٹر زبیر احمد، جناب حبیب احمد،ڈاکٹر حنا کوثر،محترمہ شائستہ حسن، جناب قدیر پرویز، محترمہ حمیدہ بیگم وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
جدید تر اس سے پرانی