ٹوئٹر پر یہ کیا لکھ گئے اکھلیش٫ مسلم ہو رہے ہیں اعتراض

*اکھلیش یادو نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے مسلم لفظ ہٹا کر کیا ٹوئٹ* علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں کی یوم وفات پر ٹوئٹ کر کے کیا خراج عقیدت،مسلم لفظ نہ ہونے سے اقلیتوں میں اضطراب دریاباد،بارہ بنکی سماجوادی پارٹی کے سربراہ سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں کے یوم وفات پر خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے 27 مارچ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے مسلم لفظ ہٹا کر خراج عقیدت کا پیغام ٹوئٹ کیا اس ٹوئٹ میں لکھا "عظیم اسکالر جدید ہندوستان کے معمار علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں کی یوم وفات پر خراج عقیدت" اور اس قبل 3 اکتوبر سال 2017 میں بنارس یونیورسٹی کے لئے لکھا تھا "بنارس ہندو یونیورسٹی کے طلباء سے ملاقات" یہ دونوں اسکرین شاٹ بہت تیزی سے سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے مسلم لفظ ہٹانے سے اقلیتوں میں اضطراب پایا جا رہا ہے اور لوگ اپنے فیس بک و ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ان دونوں ٹوئٹ کی اسکرین شاٹ پوسٹ کر رہے ہیں۔علاقہ کے ایک شخص نے ٹوئٹ کیا اور لکھا کہ یادو جی پورا نام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے۔آپ بھول گئے یا آپکو معلوم نہیں یا آپ بھاجپائی اسلامو فوبیا کے ساتھ بھی ہیں؟ اکھلیش جی صفت ہندوتوا کی سیاست نہ کیجیئے ورنہ سیاسی زندگی ختم ہوجائے گی ، آپ کو اقتدار صرف سیکولرزم ہی سے مل سکتا ہے ہندوتوا سے نہیں۔دوسرے ٹوئٹ میں لکھا "خوب
سمجھ لیجیئے کہ ہندوتوا کے دیوانے کبھی بھی ہندو صفت کا انتخاب نہیں کرے گا وہ صرف بھاجپا کو ہی چنے گا آپ کی پارٹی سیکولرازم کا نعرہ لگاتی ہے تو آپ اسی کے سہارے اقتدار تک پہنچ سکتے ہیں اس لئے یہ کھیل نہ کھلیں ورنہ صاف کہئے کہ ہم بھی وہی ہیں بس پارٹی الگ و انتخابی نشانی الگ ہے۔دوسرے شخص نے ان دونوں ٹوئٹ کی اسکرین شاٹ کے ساتھ فیس بک پر پوسٹ کیا کہا جسے مسلم لفظ سے اتنی نفرت ہے اسے مسلموں سے کتنی نفرت ہوگی یہ بات مسلموں کو خود سمجھ جانی چاہیے تو بہتر ہے"۔اسی طرح سے بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہے ہیں اور پارٹی پر سیکولرازم کے نام سے سوشل میڈیا پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔اس سلسلے میں جب نمائندہ نے قصبہ کے سماجی کارکنان و سیاسی شعور رکھنے والوں سے گفتگو کی تو ان لوگوں نے کہا کہ اس ٹوئٹ سے انکی ذہنیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ کتنی مسلم پرست ہیں اب ہم لوگوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے اور الیکشن میں ایسے لیڈران کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے ۔
جدید تر اس سے پرانی