جانیے نظیر اکبر آبادی کی شاعری میں کیا تھا خاص

نظیر اکبرآبادی کی نظموں میں ہندوستانی معاشرے کی بھرپور عکاسی ملتی ہے نظیر کی نظموں ”ہولی“ اور ”شب برأت“ پر بازگشت آن لائن ادبی فورم کا پروگرام حیدرآباد، اردو شاعری کے مزاج، ہندوستانی ذہن و تہذیب اور نظیر اکبرآبادی کی افتادِ طبع سے واقفیت کے بغیر ان کی شاعری کو بہتر طور سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ نظیر اکبرآبادی کی نظموں میں ہندوستانی تہذیب کی ترجمانی ملتی ہے۔ ہولی لوگوں کو قریب لانے کا تہوار ہے۔ہولی کا تعلق ہندومذہب اور شب برأت کاتعلق مسلمانوں سے ہے۔ سماجی اور معاشرتی بنیاد پر یہ خالص ہندوستانی تہوار ہیں۔ ہندوستانیت کی روح نظیر کی نظموں میں سمٹ آئی ہے۔نظیر معاشرے کی غلط روش پر چوٹ کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ان کی زبان سادہ اورعام فہم ہے۔“
ان خیالات کا اظہار ممتاز محقق، نقاد، کالم نویس اور ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ ادیب جناب شمیم طارق نے بازگشت آن لائن ادبی فورم کی جانب سے’نظیر اکبرآبادی کی نظموں ’ہولی“ اور ”شب برأت“ کی پیش کش اور گفتگو پر مبنی گوگل میٹ پر منعقدہ پروگرام میں بہ حیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔انھوں نے میر تقی میر سے عصر حاضر تک اردو شاعری میں ہولی کی روایت پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی اور نظیر کی مختلف نظموں کے حوالے سے ان کی شاعری کی فنی خصوصیات سے واقف کرایا۔انھوں نے بتایا کہ میر نے ہولی کو ہندوستان کا جشن نوروز کہا ہے۔مغل بادشاہ اپنے امرا اور ملازمین کے ساتھ ہولی
مناتے تھے۔ نامور افسانہ نگار، سابق صدر شعبہ اردو، یونیور سٹی آف حیدرآباد اور بازگشت آن لائن ادبی فورم کے سرپرست پروفیسربیگ احساس نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ نظیر اکبرآبادی ایک قادرالکلام شاعر تھے۔ انھوں نے مربع، مخمس، مسدس وغیرہ مختلف ہیئتوں میں نظمیں کہیں۔ سلطان قلی قطب شاہ کے بعد نظیرنے اردو نظم کا دامن وسیع کیا۔نظیر کی شاعری اس الزام کی تردید کرتی ہے کہ اردو شاعری اشرافیہ طبقے کی نمائندہ ہے۔ نظیر کو ابتدا میں نظر انداز کیاگیا۔ ترقی پسند تحریک کے زمانے میں ان کی از سر نو تعین قدر کی گئی۔نظیر اکبرآبادی نے دونوں نظمیں مذہبی نقطہئ نظر سے نہیں بلکہ سماجی اور معاشرتی زاویہ نگاہ سے لکھیں۔ہندوستان کے مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا ایک دوسرے پر اثر ہے۔ شب برأت میں پٹاخے چھوڑنے اور پھلجھڑیاں جلانے کی رسم دراصل دیوالی سے متاثر ہوکر اختیار کی گئی۔ کثرت میں وحدت ہندوستان کی شان ہے۔نظیرنے چھوٹی چھوٹی معمولی چیزوں کو شاعری کا موضوع بنا کر ان کی اہمیت میں اضافہ کیا۔“
ابتدا میں جناب ارمان فرشوری، یونی ورسٹی آف سویڈن کے فارغ ویب انجینئرنے نظیر کی نظمیں ”ہولی“ اور ”شب برأت“ عمدگی کے ساتھ پیش کیں۔پروفیسر بیگ احساس اور جناب شمیم طارق نے ان کی ستائش کرتے ہو ئے کہا کہ ارمان فرشوری نے نہایت اعتماد کے ساتھ ان نظموں کی دل کش قرأت کی۔افسانہ نگار جناب ملکیت سنگھ مچھانا اور جناب پرویز احمد نے مباحث میں حصہ لیا۔ ابتدا میں پروگرام کے کنوینر ڈاکٹرفیروز عالم،استاد شعبہ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی نے نظیر اکبرآبادی کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وہ1740میں دہلی میں پیدا ہوئے لیکن ان کی پوری زندگی آگرے میں گزری۔ وہ ایک مجلسی آدمی تھے اور ہر طبقے کے لوگوں کے درمیان ان کا اٹھنا
بیٹھنا تھا۔ قناعت پسندی، خلوص، انسانی ہمدردی،رواداری، وسیع المشربی اور قلندرانہ شان ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ انھوں نے عوام خصوصاً غریب اور نادار افراد کا دکھ درد اپنی نظموں میں پیش کیا۔طبقاتی شعوران کی شاعری کا اہم وصف ہے۔انھوں نے مختلف تقریبات اور تہواروں کی تصویر کشی کرتے ہوئے امیر اور غریب دونوں کے حالات پر نظر رکھی۔نظیر اکبرآبادی ایک زود گو شاعر تھے۔فارسی میں ایک اور اردو میں دو دیوان ان کی یادگار ہیں۔آگرے میں ہی 16 اگست1830 کو ان کا انتقال ہوا۔ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے لوگوں نے باری باری ان
کی نماز جنازہ پڑھی۔ بازگشت آن لائن ادبی فورم کے مجلس منتظمہ کی رکن ڈاکٹر گل رعنا، استاد شعبہ اردو، تلنگانہ یونی ورسٹی، نظام آبادنے حاضرین کا خیر مقدم کیا،جناب شمیم طارق کا تعارف کرایا اور جلسے کی بہترین نظامت کی۔ بازگشت کی دوسری رکن ڈاکٹر حمیرہ سعید پرنسپل گورنمنٹ کالج فار ویمن، سنگاریڈی نے جناب ارمان فرشوری کا تعارف کرایا اور پروگرام کے آخر میں جامع اظہارِ تشکر کیا۔ بازگشت کے تکنیکی مشیر جناب غوث ارسلان، سینئر صحافی اور ماہر خطاطی،جدہ، سعودی عرب نے تکنیکی امور میں تعاون کیا۔اجلاس میں ملک و بیرونِ ملک کے شائقین ادب، اساتذہ اور طلبا و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان میں پروفیسرحبیب نثار، پروفیسر غیاث الرحمٰن سید، پروفیسرغلام شبیر رانا،جناب سردار علی، ڈاکٹر سعید نواز، جناب ملکیت سنگھ مچھانا،جناب اسلم فرشوری، محترمہ افشاں جبیں فرشوری،ڈاکٹر مسرت جہاں،ڈاکٹر تلمیذ فاطمہ نقوی،ڈاکٹر ابو شہیم خاں،ڈاکٹر محمد عبدالحق،ڈاکٹر اسلم فاروقی، ڈاکٹر عطیہ رئیس، ڈاکٹر ہادی سرمدی، ڈاکٹر عشرت ناہید،ڈاکٹر کہکشاں لطیف، محترمہ صائمہ بیگ، جناب نوشاد انجم، ڈاکٹر محمد قاسم علی بیگ، جناب دانش غنی، جناب پرویز احمد، جناب کبیر علی، جناب اقبال احمد،محترمہ فرح تزئین، محترمہ مہہ جبیں شیخ،محترمہ عظمیٰ تسنیم،محترمہ عظمت دلال، محترمہ عطیہ فاطمہ، جناب انور اعظم وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
جدید تر اس سے پرانی