*اصلاح معاشرہ بنام جہیز*

*ایک احساس* محمد خالد عائشہ نے غیر فطری ابدی نیند سو کر قائدین ملت کو بیدار کر دیا ھے. اج پرسنل لاء بورڈ کے ذریعہ اصلاح معاشرہ مہم کے تحت آن لائن مذاکرے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں تقریباً سبھی مقررین نے جہیز کو موضوع بنایا اور اخبارات میں شائع کرائے گئے "اقرار نامہ" اشتہار کے حوالے سے ذمہ داران ملت سے اپیل کی گئی کہ وہ اس اقرار نامہ میں دئے گئے سبھی اصولوں کو عام مسلمانوں تک پہنچانے کی کوشش کریں جس کے لئے خطبہ جمعہ کو ذریعہ بنانے کی اپیل کی گئی. نکاح کو سادگی کے ساتھ مسجد میں منعقد کرنے پر بہت زور دیا گیا مگر حیرت انگیز بات ھے کہ کسی نے بھی نہیں کہا کہ نکاح کی محفل منعقد کرنے کے بجائے ولیمہ کو سادگی سے انجام دیا جائے. دوسری بات یہ کہ جہیز کی مخالفت کرنا تو ھر مقرر نے ضروری سمجھا مگر کسی نے بھی ذکر نہیں کیا کہ مہر کی ادائیگی کس قدر ضروری ھے اور نہ ہی یہ ذکر آیا کہ اللہ نے ازدواجی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری صرف مرد پر عائد کی ھے. ایک بہت سینئر رہنما نے اپنی گفتگو کا اختتام اس تجویز پر کیا کہ اگر کوئی صاحب اپنی بیٹی کو شادی کے موقع پر کچھ دینا ہی چاہتے ہیں تو وہ جہیز کی شکل میں نہ دے کر نقد دے دیں یا اس کے ہونے والے شوہر کی معاشی مدد کر دیں تاکہ وہ اپنے کاروبار وغیرہ میں اس رقم کو استعمال کر لے. اُن کی یہ تجویز سن کر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا، پیش خدمت ھے. محکمہ حیوانات میں شکایات آئیں کہ مویشی پالنے والے اکثر افراد اپنی ضروریات کے لئے جانور پالتے ہیں اور ان کے ذریعہ فائدے حاصل کرتے ہیں مگر جانوروں کو بھرپیٹ کھانا نہیں دیتے لہٰذا ایسے لوگوں پر جرمانہ عائد کیا جائے. چنانچہ ان شکایتوں کے ازالہ کے لئے شہر کے مویشی پالنے والوں کو طلب کیا گیا اور ایک ایک کر کے سبھی سے سختی کے ساتھ جرح کے بعد نوعیت کے اعتبار سے جرمانے عائد کئے گئے، ایک مویشی مالک سے سوالات شروع ہوئے اور آخری سوال خوراک کے تعلق سے کیا گیا تو اس شخص نے بڑے اطمینان سے اپنے شانے اچکاتے ہوئے کہا کہ "نقد دے دیتا ہوں، جو دل چاھے کھا لے" محمد خالد ایشو
جدید تر اس سے پرانی