علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی آن لائن الومنئی میٹ 2021 کا انعقاد

علی گڑھ: ”علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)میرے خون میں شامل ہے۔ میں نے اے ایم یو کے ایس ٹی ایس اسکول (منٹو سرکل) سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انجینئرنگ میں داخلہ لیا اور جو کچھ بھی میں نے اے ایم یو میں کلاس کے اندر اور اس کے خوبصورت کیمپس میں سیکھا اس نے میری فکر اور میرے کیریئر کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا ہے“۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر حسن کامل (بورڈ سربراہ، یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، سانتا کرز، امریکہ ) نے کیا۔ وہ اے ایم یو سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کی آن لائن تقریب (الومنئی میٹ-2021) میں بطور مہمان خصوصی خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے کہا”مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ منٹو سرکل میں تاریخ کے میرے استاد توقیر صاحب کس طرح مجھے زندگی میں بہتر کرنے کی ترغیب دیتے تھے“۔ اعلیٰ تعلیم پر کووِڈ 19 کے اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر کامل نے کہاکہ اعلیٰ تعلیم کا منظرنامہ ہمہ وقت تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ گزشتہ سال کووِڈ وبا نے طلبہ و طالبات کو بحران میں مبتلا کیا اور ان کے سامنے یہ سوال گردش کرنے لگا کہ کالج کا مستقبل کیسا ہوگا۔ انھوں نے کہا ”کئی نئے رجحانات سامنے آئے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں مزید تبدیلیاں ہوں گی۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ نظر آرہی ہے کہ آن لائن لرننگ کو فروغ ملا ہے۔ اسکول، کمیونٹی کالج ، ٹریڈ کورسوں سے لے کر ہر طرح کے تعلیمی ادارے اس تبدیلی سے متاثر ہورہے ہیں“۔ ڈاکٹر حسن کامل نے کہاکہ کووِڈ بحران کے سبب بہت سی یونیورسٹیوں کا فنڈ کم ہوا ہے تاہم اس وبا نے تعلیم و تدریس کے محاذ پر نئے ٹکنالوجی اختراعات کی راہیں ہموار کی ہیں۔ کچھ یونیورسٹیاں پوری طرح سے آن لائن طریقہ سے چل رہی ہیں جب کہ کچھ نے آف لائن اور آن لائن دونوں کو اپنایا ہوا ہے۔ انھوں نے زور دیتے ہوئے کہاکہ جو یونیورسٹیاں نئی ٹکنالوجی کو اپنائیں گی وہ کامیاب رہیں گی جب کہ دوسری یونیورسٹیاں فیل ہوجائیں گی۔ ڈاکٹر کامل نے مزید کہا کہ طب کی تعلیم میں ورچوئل ریئلٹی میتھڈ کو اپنایا جارہا ہے اور تھری ڈی پرنٹنگ نے اساتذہ اور معلّمین کو نظریات و تصورات کے لئے بہتر ڈیزائن تیار کرنے کا موقع فراہم کیا ہے جس سے تدریسی مواد کمپیوٹر اسکرین سے براہ راست طلبہ کے ہاتھوں میں پہنچ جاتا ہے۔ انھوں نے کہا ”علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ان جدید تکنیکی اختراعات کو اپناسکتی ہے اور مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ یونیورسٹی اس سمت سنجیدگی سے کام کررہی ہے“۔ ڈاکٹر کامل نے اے ایم یو سے تعلیم یافتہ افراد کو زیادہ سے زیادہ متحرک کرنے پر زور دیتے ہوئے کہاکہ سابق طلبہ اپنی مادرِ علمی کو ایک برانڈ بنانے میں اہم کردار نبھاتے ہیں۔ اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ سابق طلبہ و طالبات ہمارے برانڈ امبیسڈر ہیں اور انھوں نے بحران کے وقت میں مدد کی ہے۔ اے ایم یو اپنے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کی کامیابیوں اور حصولیابیوں پر فخر محسوس کرتی ہے۔ وائس چانسلر نے کہا ”یہ ہمارے لئے خوشی کی بات ہے کہ سین فرانسسکو میں پروفیسر حسن کامل کے سنٹر کو ہندوستان ہی نہیں بلکہ دیگر ملکوں کے لوگ بھی استعمال کرتے ہیں۔ اے ایم یو سے فارغ التحصیل پروفیسر نجمہ اختر ہندوستان میں کسی سنٹرل یونیورسٹی کی اولین خاتون وائس چانسلر بنی ہیں جو باعث فخر و مسرت ہے۔ اسی طرح مسٹر طارق چوہان نے ہمارے بے شمار طلبہ کی سرپرستی کی ہے اور ان کے کیریئر کو سنوارا ہے۔ مسٹر محبوب الحق نے ہندوستان کے شمال مشرق میں غریبوں کے لئے تعلیم کے راستے کھولے ہیں ، جب کہ مسٹر نور الحسن ایک عمدہ آئی پی ایس افسر ہیں جن کا تعلیمی ریکارڈ شاندار رہا ہے اور وہ یوپی ایس سی امتحانات میں کامیابی میں ہمارے طلبہ و طالبات کے لئے باعث تحریک بنتے ہیں۔ پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ سابق طلبہ کے ساتھ رشتوں کو مستحکم کرنے میں سابق وائس چانسلر پروفیسر پی کے عبدالعزیز اور لیفٹیننٹ جنرل ضمیرالدین شاہ کی سنجیدہ کاوشوں کو وہ آگے بڑھارہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اے ایم یو الومنئی ڈائرکٹری-2020 اپنے سابق طلبہ کے ساتھ ایک کنبہ کی طرح مربوط ہونے میں مددگار ثابت ہوگی۔ وائس چانسلر نے الومنئی ڈائرکٹری کا اجراءکیا۔ انھوں نے کہا ”یہ ایک طویل سفر کی شروعات ہے اور ڈائرکٹری کا ڈجیٹل ایڈیشن جو آن لائن دستیاب ہے، سابق طلبہ کو جوڑنے کا کام کرے گا“۔ کووِڈ 19 کے ساتھ جنگ میں جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے اے ایم یو وائس چانسلر نے کہا ”ہم نہ صرف لوگوں کی ٹیکہ کاری کررہے ہیں بلکہ ہمارا صحت عملہ کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں محاذ پر دن رات کام کررہا ہے“۔ تقریب کی مہمان اعزازی پروفیسر نجمہ اختر (وائس چانسلر، جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے کہاکہ سابق طلبہ اپنی مادرِ علمی سے پیار کرتے ہیں۔ مادر علمی سے جذباتی لگاو¿ اپنی زندگی سے متعلق کسی بھی پڑاو¿ میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس میں فخر و مسرت اور احسان مندی کے جذبات شامل ہوتے ہیں اور یادیں جڑی ہوتی ہیں۔ انھوں نے کہا ”اے ایم یو میں تعلیم اور ملازمت نے ان کے اندر ایڈمنسٹریٹیو صلاحیت کو پروان چڑھایا “۔ پروفیسر نجمہ اختر نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جڑیں اے ایم یو میں ہی ہیں اور جامعہ کے بہت سے اساتذہ اور طلبہ و طالبات اے ایم یو سے ہیں۔ انھوں نے دونوں یونیورسٹیوں کی الومنئی ایسوسی ایشنوں کے استحکام پر زور دیا۔ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نشیں صنعتکار مسٹر طارق چوہان نے کہا کہ اے ایم یو میں تعلیم نے ان کے اندر اخلاقی قدروں کی نشو و نما کی اور انھیں عزم و حوصلہ سے کام کرنا سکھایا، جس سے مشکل وقتوں میں اٹھ کھڑے ہونے میں مدد ملتی ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر اے ایم یو سے تعلیم یافتہ لوگوں کی ٹیم ان کے ساتھ نہ ہوتی تو وہ بڑا کاروبار نہیں کرپاتے۔ مسٹر طارق چوہان نے نالج شیئرنگ پلیٹ فارم قائم کرنے کے لئے سابق طلبہ کو ساتھ لانے پر زور دیا اور بنیادی ڈھانچہ اور نالج کے پہلو سے اے ایم یو کو ہر ممکن مدد کا یقین دلایا۔ مہمان اعزازی مسٹر نور الحسن آئی پی ایس نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ان کی کامیابی میں ان کے اساتذہ کا بنیادی کردار ہے۔ انھوں نے کہا ”اے ایم یو کے میرے اساتذہ نے مجھے سکھایا کہ خوابوں کی تکمیل کیسے کی جاتی ہے اور یونیورسٹی نے مجھے مطلوبہ اسکالرشپ دی۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ تعلیم کی تکمیل کے بعد ہم اپنی مادرِ علمی کی ممکنہ خدمت کریں“۔ انھوں نے سول سروسیز کے امتحانات میں اے ایم یو کے طلبہ کی مدد کے لئے شروع کی گئی اپنی ویب سائٹ اور ویڈیو چینل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ”ہماری ویب سائٹ freeacademy.org پر سو سے زائد سول سرونٹس نے مفت خطبات دئے ہیں“۔ مسٹر محبوب الحق (چانسلر، یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی، میگھالیہ) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہم اپنی یونیورسٹی کو اعلیٰ تعلیم کا عالمی سطح کا سنٹر بنانا چاہتے ہیں اور اے ایم یو کے سابق طلبہ سے اپیل ہے کہ وہ اس میں ہماری مدد کریں۔ انھوں نے بڑے تعلیمی اداروں کے ساتھ مفاہمت ناموں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں اے ایم یو سے فارغ التحصیل افراد اور اساتذہ نے خاطر خواہ تعاون کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہاکہ ادارے کی تعمیر میں ہمیں سب سے بڑی ترغیب اے ایم یو کے بانی سرسید احمد خاں کی زندگی سے ملی ہے۔ انھوں نے کہا ”ادارے تعمیر کرنا میں نے اے ایم یو میں سیکھا اور سرسید کی دوراندیشی کو راہ عمل بنانے کی میں نے کوشش کی ہے“۔ خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر ایم ایم سفیان بیگ (چیئرمین، الومنئی افیئرز کمیٹی) نے کہاکہ الومنئی ڈائرکٹری میں ملک اور شہر کے اعتبار سے حرفی ترکیب میں نام شامل کئے گئے ہیں۔ اس کی سو کاپیاں شائع کی گئی ہیں اور یہ آن لائن بھی دستیاب ہے۔ انھوں نے کہا کہ بعد کا ایڈیشن دو جلدوں میں ہوگا اور الومنئی ایسوسی ایشن، تاریخ، عہدیداران و بنیادی اراکین اور ان کی خدمات کو بھی اس میں شامل کیا جائے گا۔ پروفیسر بیگ نے علیگ برادری سے اپیل کی کہ وہ AligConnect.com پر رجسٹر کریں ۔ اینڈرائڈ اور آئی او ایس پر اس کا ایپ بھی دستیاب ہے۔ انھوں نے الومنئی اِنڈومنٹ فنڈ، کشش (الومنئی کے بچوں کو اے ایم یو سے جوڑنے کا پروگرام)، اور علیگس اکیڈمک اِنرچمنٹ پروگرام پر بھی روشنی ڈالی۔ پروفیسر محمد مبین (وائس چیئرمین، الومنئی افیئرز کمیٹی) نے شکریہ کے کلمات ادا کئے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر فائزہ عباسی نے انجام دئے۔ اس موقع پر مختصر فلم ’نوسٹلجیا‘ کی نمائش بھی کی گئی، جس میں یونیورسٹی ترانے کی انسٹرمنٹل موسیقی میر اختر حسین نے دی ہے۔ آن لائن الومنئی میٹ میں اے ایم یو پرو وائس چانسلر پروفیسر ظہیرالدین ، فائننس افسر پروفیسر ایس ایم جاوید اختر، متعدد اساتذہ اور اہلکار موجود تھے۔
جدید تر اس سے پرانی